سنیتا کو اپنے کزن سے شادی کی سزا تو ملے گی


    سنیتا راٹھور آج کل سندھ میں جانا پہچانا نام ہے۔ وہ انسانی حقوق کی کارکن  ہے، سماجی ورکر ہے اور اپنے شوہر اور بچے سے بے انتہا محبت کا پیکر ہے۔ اس نے اپنے آپ سے ہونے والی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں چھوڑا۔

سنیتا نے اپنے پھوپھی زاد دیپک راج سے پیار کیا اور کورٹ میرج کی تھی۔ ہندو مذہب میں کزن میرج مذہبی طور پر منع ہے اور اس کو گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ سنیتا کو اس گناہ کی سزا ملی، خاندان والوں نے لڑکے اور لڑکی دونوں سے قطع تعلق کرلیا۔ بات یہاں تک تو ٹھیک تھی۔ ہر کوئی اپنی زندگی گذار رہا تھا کہ اچانک  سندھ پولیس اس معاملے میں کود پڑی اور سنیتا کے شوہر دیپک کو ہاف فرائی کر ڈالا۔

ہاف فرائی اور فل فرائی سندھ پولیس کی  وہ ماورائے عدالت کارروائی ہے جس میں ملزم کو گرفتار کرتے ہی موقعہ پر یا بعد میں گولی مار کر سزا دی جاتی ہے۔ گھٹنے  میں  ایسی جگہ گولی مار کر زخمی کرنا کہ  ٹانگ دوبارہ  بن سکنے یا نارمل ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو کو ہاف فرائی اور کسی سنگین جرم کے مرتب ملزم یا مجرم کو موقعہ پر یا بعد میں گولی مار کر ہلاک کردینے کو فل فرائی کا نام دیا گیا۔

ماضی قریب میں  فل فرائی اور ہاف فرائی سندھ بھر میں روزانہ کا معمول رہا ہے اور اس میں ماہر آفیسر دبنگ آفیسر اور فل فرائی اور ہاف فرائی کے ماہر کہلاتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ آف دی رکارڈ پولیس کا موقف یہ تھا کہ جرائم بڑھ گئے ہیں اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے مجرم  بھی عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور پھر پہلے سے بھی بڑا جرم کرتے ہیں اس لئے ان کو سزا دینے کے لئے فل فرائی اور ہاف فرائی کرنا پڑا۔ سندھ میں جرائم کی تعداد میں اس فل فرائی اور ہاف فرائی سے نمایاں کمی آئی مگر بہرحال یہ ایک غیر قانونی قدم تھا اور ہے جس میں شاید کئی بے گناہ بھی یا تو ہاف فرائی ہو کر ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے یا پھر فل فرائی  ہو کراپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ سنیتا کے شوہر دیپک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ پولیس نے اسے مجرم گردان کر  ہاف فرائی کر ڈالا اور دونوں ٹانگوں میں گولیاں مار کر ہمیشہ کے لئے معذور کر دیا۔

اس کیس کا سب سے ڈرامائی پہلو یہ ہے کہ دیپک راج اور اس کی بیوی سنیتا راٹھور کا کہنا ہے کہ ان دونوں کو پیار کرنے اور شادی کرنے کی سزا دی گئی ہے اور ان کے گھر والوں نے پیسے دے کر پولیس سے دیپک کو ہاف فرائی کروایا کیونکہ ان کے رشتیداروں کے نزدیک ہم دونوں نے پھوپھی زاد اور ماموں زاد ہونے کے باوجود شادی کی اور گناہ کرکے  ٹابو کے مرتب ہوئے۔

 تین سال قبل سال 2015 میں حیدرآباد  کے علاقے سائیٹ ایریا میں ایک پولیس مقابلا رپورٹ ہوا تھا، جس میں پولیس نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ انہوں نے مشہور ڈاکو شریف پہنور کو مقابلے میں زخمی کیا ہے۔   بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ پولیس  جس ڈاکو شریف پنہور کو شدید زخمی حالت میں اسپتال لائی تھی وہ اصل میں ڈاکٹر دیپک راج ہے۔ دیپک نے ایم ایس سی سائکالوجی کی ڈگری لی ہوئی ہے اس لئے اس کے دوست احباب اس کو ڈاکٹر کہتے ہیں۔ دیپک کا اپنے زخمی ہونے کے واقعے کے بارے میں بتانا ہے کہمیں حیدرآباد  میں جیسے ہی فتح چوک کالی مندرکےنزدیک  پہنچا  اسی دوران سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے مجھے آ دبوچا، میری آنکھوں پہ پٹی باندھی اور مجھے اٹھا کر ایک جنگل نما جگہ لے آئے اور کہنے لگے تم بدنام کرمنل شریف پنہور ہو اور 15 سے زائد جرائم میں ملوث اور روپوش ہو میں نے انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھایا لیکن انہوں نے  میری کوئی فریاد نہ سنی میری دونوں ٹانگوں اور بازو میں گولیاں ماریں اور شدید زخمی حالت میں مجھے اسپتال لے آئے۔ زندگی باقی تھی کہ جان تو بچ گئی مگر ان گولیوں کی وجہ سے  میری دائیں ٹانگ ٹخنے کے اوپر سے کٹ چکی ہے اور سیدھا بازو بھی بالکل کام نہیں کرتا اور بائیں ٹانگ کے پانچ آپریشن ہونے کے باوجود کوئی بھی بہتری نہیں آئی بلکہ اور زیادہ حالت خراب ہو گئی ہے اور اب بائیں ٹانگ بھی کٹنے کی نوبت کوآ گئی ہے  گذشتہ تین سالوں سے ہر اسپتال سے علاج کروایا مگر بہتری نہیں آئی ہے

ہمارا ایک پانچ سالہ چھوٹا بچہ ہے ایک ساتھ تین زندگیاں متاثر ہوئی ہیں پولیس نے ہماری لو میریج کی وجہ سے ہمارے رشتے داروں سے رشوت لے کر میری اور میرے خاندان کی زندگی برباد کر دی۔

 مذہبی معاملات  خواہ کسی بھی مذہب کے کیوں نہ ہوں حساس ہوتے ہیں  مگر پھر بھی قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے  دیپک اور اس کی بیوی سنیتا نے کوئی عدالت اور عوامی فورم نہیں چھوڑا جہاں اس ظلم کے خلاف فریاد نہ کی ہو مگر کہیں داد رسی نہیں ہو پا رہی۔ میڈیا میں یہ کیس کافی رپورٹ ہوا تھا، اب بھی کبھی کبھی ان دونوں کی درد بھری اسٹوری چھپتی ہے مگر ان اسٹوریز سے دیپک، سنیتا اور ان کے پانچ سال کے بیٹے روہن کا پیٹ بھر کا کھانا مہیا نہیں ہوپا رہا اوپر سے دیپک تین سال سے مسلسل زیر علاج ہے اس کا خرچہ الگ۔

لندن میں رہنے والے میرے ایک دوست ڈاکٹر منجانی کہتے ہیں کہ ہندو لڑکی، مسلمان لڑکا، یا مسلمان لڑکی ہندو لڑکا، یا کزن میرج وغیرہ جیسے معاملات پر طوفان صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی اٹھتا ہے یہاں لنڈن میں ہماری ہندو لڑکی یا کسی کی کوئی مسلمان لڑکی، سکھ کے ساتھ جائے، یہودی کے ساتھ جائے، کالے کے ساتھ زندگی بسر  کرے یا گورے کے ساتھ، عجمی کے ساتھ رہے یا عربی کے ساتھ، کچھ بھی کرے، بلکہ عام ہوتا رہتا ہے، اس کی اپنی مرضی ہے یہاں کوئی طوفان نہیں اٹھتا  بس یہ سب ہمارے ملکوں میں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).