اے ہاؤس فار مسٹر کیجریوال


کیجریوال

کیا آپ کو معلوم ہے کہ دلی کے وزیراعلی اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال آجکل راتیں (اور دن بھی) کہاں گزار رہے ہیں؟

آج مسلسل تیسرا دن ہے کہ وہ گھر نہیں لوٹے ہیں۔ جب وہ وزیراعلی بنے تھے تو اس بات پر بہت ہنگامہ ہوا تھا کہ انہیں کتنے بڑے (یا چھوٹے) گھر میں رہنا چاہیے کیونکہ عام آدمی پارٹی سادگی اور موثر حکمرانی کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔

اب لگتا ہے کہ انھوں نے دونوں ہی مسئلوں کا پائیدار حل تلاش کر لیا ہے۔ وہ پیر کو دلی کے لیفٹننٹ گورنر (ایل ج) سے ملنے گئے تھے لیکن وہاں سے لوٹے نہیں۔ ایل جی کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر ایک شاندار عمارت ہے، وہاں خوبصورت لان بھی ہے اور ہر وقت اے سی بھی چلتا ہی ہو گا، تو ایسی گرمی میں کہیں اور رہنے یا جانے کی کیا ضرورت ہے۔

لیکن چونکہ ایل جی انل بیجل سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہے، بس بات چیت بھی مجبوری میں ہی ہوتی ہے، اس لیے مسٹر کیجریوال نائب وزیر اعلی منیش سسوڈیا اور اپنی کابینہ کے دو وزرا کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں تاکہ دل لگا رہے۔ یعنی دلی کی تقریباً آدھی کابینہ اس وقت راج بھون میں خیمہ زن ہے۔ (دلی کو چونکہ مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے اس لیے یہاں ایل جی کو کافی اختیارات حاصل ہیں)

اروند کیجریوال اور منیش سیسوڈیا

اروند کیجریوال اور منیش سیسوڈیا نے دہلی کے ایل جی کے گھر راج بھون کے باہر دھرنا دے رکھا ہے

چاروں ایل جی کے دفتر کے باہر ویٹنگ روم میں رکے ہوئے ہیں۔ قریب ہی ایک ٹائلٹ ہے جو وہ استعمال کر رہے ہیں۔ کھانا گھر سے آتا ہے اور سنا ہے کہ چائے کا انتظام راج بھون کی جانب سے ہی کیا جا رہا ہے۔

آخر مہمان نوازی بھی کوئی چیز ہے!

سونے کے لیے بیڈ تو نہیں ہے لیکن فرض کی راہ میں اگر صوفہ بھی مل جائے تو کیا برا ہے؟

لیکن مسئلہ ذرا سنگین ہے۔ جب سے دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت آئی ہے سرکاری افسران کے ایک حلقے اور بی جے پی کی وفاقی حکومت کے ساتھ اس کی محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔

عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ وفاقی حکومت اس کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کے لیے ایل جی اور ان کے ذریعہ بیوروکریسی کو کنٹرول کر رہی ہے۔ سرکاری افسران کا الزام ہے کے عام آدمی پارٹی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے چیف سیکریٹری کے ساتھ مارپیٹ کی تھی۔

یہ پس منظر ہے لیکن ریاستی حکومت، وفاقی حکومت، سرکاری افسران اور ایل جی، سب سبھی الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

مسٹر کیجریوال کے مطابق ایل جی اور افسران کی سرد مہری کی وجہ سے حکومت کے ترقیاتی کام متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایل جی افسران کی ‘جزوی ہڑتال’ کو غیر قانونی قرار دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کام پر لوٹیں، اور جو فائیلیں منظوری کے لیے انھیں بھیجی جاتی ہیں، ان پر جلدی فیصلہ کریں۔

اس لیے ایل جی کو دباؤ میں رکھنے کے لیے انھوں نے مسٹر بیجل کے دفتر کے باہر ہی بستر بچھا لیا ہے۔ فی الحال دلی کے وزیر صحت ستیندر جین اور منیش سسوڈیا نے بھوک ہڑتال بھی شروع کردی ہے۔

جن لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ ایل جی اور وزیر اعلی کے درمیان ‘کامیونیکیشن گیپ’ ہے یا یہ کہ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے، اب ان کی شکایت بھی ختم ہو جائے گی۔

اب دونوں ہی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی حکومت اور ایل جی ایک دوسرے کے اس سے زیادہ قریب نہیں آسکتے۔ مسٹر بیجل کو بھی یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ حکومت نے انھیں فائل بھیجی ہی نہیں ہے کیونکہ دروازہ کھول کر خود اروند کیجریوال انھیں فائل پکڑا دیا کریں گے۔

ابھی تک تو مسٹر بیجل نے پلک نہیں جھپکی ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ مسٹر کیجریوال اور ان کے وزرا کو راج بھون اتنا پسند آجائے کو وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں بلا لیں۔ زندگی میں ‘ورک لائف بیلنس’ بھی بہت اہم ہے۔

بچے باہر لان میں کھیلیں گے اور مسٹر کیجریوال اور مسٹر بیجل مل کر حکومت چلائیں گے۔ دونوں کہیں گے کہ آؤ دونوں بھائی مل کر عوام کے لیے کام کرتے ہیں جیسا کہ جمہوریت میں ہونا چاہیے۔

لیکن ابھی شاید وہ وقت آنے میں دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp