بس ہوسٹس: ایک اور غلط عورت اپنے انجام کو پہنچا دی گئی


یہ مضمون لکھنا ہے بہت مشکل کیونکہ میں بہت غصے میں ہوں اور غصہ بنتا بھی ہے۔ آپ بھی سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھیں گے تو یقینا غصہ محسوس کریں گے۔ آپ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان عورتوں نے کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی عورت اپنا اصلی مقام بھول جانے کی وجہ سے کسی شریف آدمی کو غصہ دلاتی اور اس کی زندگی خراب کرتی ہے۔ حالانکہ ہم نے پاکستان میں عورتوں کو ایک محفوظ غلامانہ زندگی گزانے کے لیے بہت سہولتیں دے رکھی ہیں اور بہت سازگار حالات پیدا کر رکھے ہیں۔ ان حالات میں ایسا ممکن نہیں ہونا چاہیے کہ کسی عورت کو قتل کرنے کی نوبت آئے کیونکہ وہ کسی بات سے انکار کر پائے گی تو قتل کی نوبت آئے گی۔ لیکن عورتیں یہ بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں اور ہر روز اپنی زندگیوں پر اپنا حق جتا بیٹھتی ہیں۔ ذرا سوچو محنت مزدوری کرنے اور حلال کی روزی کمانے کے بہانے گھر سے نکل پڑتی ہیں حالانکہ عورت کی کمائی حلال ۔۔۔۔ خیر چلو اس بات کو تو رہنے ہی دو۔ ٹانگے اور کوٹھے پر پہلے ہی بہت بحث ہو چکی ہے اور ظاہر ہے کہ ٹانگہ چلانا عورت کے لیے کوئی مناسب بات نہیں ہے۔

تو بات یہ ہو رہی تھی کہ باوجود اس کے کہ ہم نے عورتوں کی آسانی کے لیے گھر سے باہر کا ماحول ایسا بنا رکھا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے وہ ایک ہزار مرتبہ سوچیں اور اس عیاشی سے پرہیز ہی برتیں۔ باہر ہم زندہ اور غیرت مند مرد ہوتے ہیں اس لیے عورت کو گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی ہر دیوار اور ہمارے چہروں پر لکھا نظر آ جاتا ہے کہ وہ اچھی عورت نہیں ہے۔ لیکن یہ عورتیں ہیں کہ اس بات کی پروا ہی نہیں کرتیں۔ صرف یہی نہیں وہ ساتھ کام کرنے والے یا صرف آس پاس سے گزرنے والے بے چارے مردوں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھتیں۔ اس بات کا معمولی سا بھی احساس نہیں کرتیں کہ ان کے سامنے آ جانے سے بے چارے مردوں کے جذبات جو بھڑک جاتے ہیں تو اس کی ذمہ داری لیں اور اس کی تلافی کریں بلکہ کفارہ ادا کریں۔ اور ہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ مرد بے چارہ تو چاہتا ہے کہ عورت کے کام پر آنے سے مرد کے جذبات جب بھڑک ہی گئے ہیں تو پھر اس پر کوئی فساد نہ کھڑا ہو بلکہ عورت خاموشی سے کفارہ ادا کر دے اور کرتی رہے۔ لیکن عورتیں ٹھہریں ضدی وہ کسی کی عزت اور اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہ کہ مرد نے تو اپنی عزت کی حفاظت کرنا ہی ہوتی ہے اور اس کی خاطر عورت کی جان چلی جاتی ہے۔

اب یہ فیصل آباد میں بس ٹرمینل پر پستول کی گولی کھانے کی شوقین عورت کو ہی دیکھو، پستول کی ایک ہی گولی چلانے والے بے چارے مرد کی زندگی خواہ مخواہ خراب کر دی۔ جب اس بے چارے مرد نے سیڑھیاں چڑہتے ہوئے آپ کا بازو زبردستی پکڑ ہی لیا ہے تو ضد چھوڑیں، اپنا مقام پہچانیں اور اس کے جذبات کی قدر کریں۔

سنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی عورت ابھی ملتان سے آنے والی بس کے ساتھ ہوسٹس کے طور پر اپنی ڈیوٹی کر کے آئی تھی۔ چلو مان لیا کہ وہ ڈیوٹی سے تھک گئی ہو گی اور چھٹی ملنے پر خوش ہو گی۔ اس کا کوئی گھر ہو گا، باپ تو مر چکا تھا، ماں اور بھائی بہن ہوں گے۔ یہ بھی مان لیا کہ وہ انہی کے لیے نوکری کر رہی ہو گی۔ ہو سکتا ہے آگے عید کا سوچ رہی ہو اور سوچ رکھا ہو کہ اپنے کس پیارے بہن بھائی کے لیے کون سا تحفہ خریدنا ہے اور اسے سرپرائز دینا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی بہت چھوٹی عمر کی تھی اس لیے اس نے اپنی شادی کے لیے کچھ سوچا ہی نہ ہو۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ غریب گھر کی ہو گی تو اتنی چھوٹی سی عمر میں روزگار کی ضرورت پڑ گئی ورنہ پڑھ رہی ہوتی۔ یہ ساری باتیں ٹھیک مان بھی لی جائیں تو اس کی یہ غلطی تو معاف نہیں کی جا سکتی کہ وہ محض ایک عورت تھی۔ اور یہ کہ اس کی وجہ سے ایک مرد کے جذبات بھڑک اٹھے تھے تو اس نے اس مرد اور اس کے جذبات کی قدر نہیں کی۔ اور احساس بھی نہیں کیا کہ جو خرابی پیدا کرنے کی وہ ذمہ دار ہے اس کا کفارہ بھی ادا کر دے اور کرتی رہے۔

ویڈیو میں واضح نظر آ رہا ہے کہ مرد نے اسے صرف بازو سے پکڑا اور وہ آگے سے خواہ مخواہ بحث کرنے لگی۔ یقینا وہ اس بے چارے مرد کی درخواست کو مسترد کر رہی تھی۔ یہ بھی سوچنا اہم ہے کہ وہ بے چارہ یہ درخواست کئی مرتبہ کر چکا ہو گا۔ اب اس ساری صورت حال میں اس شخص کے پاس کیا حل رہ گیا تھا۔ بے بس ہو کر اس نے پستول نکالی اور گولی چلا دی۔ گولی کسی ٹھیک حصے پر لگی اور یہ گناہ گار عورت جلد ہی اپنا انجام پا گئی۔

وہ مرد کوئی اتنا بے وقوف بھی نہیں ہے جس نے ایک عورت کو مسترد کرنے پر گولی مار دی ہے۔ اس نے ٹھیک حساب لگایا ہو گا۔ عورت کو مارنے پر پاکستان میں کم ہی کسی کو پھانسی ہوتی ہے۔ مقتول عورت کے ورثا بھی بدلہ لینے کا نہیں سوچتے۔ محلے والے اور عام لوگوں کو بھی یقین ہوتا ہے کہ کوئی گڑبڑ کی ہو گی تبھی تو ماری گئی ہے۔ ایک عورت کا قتل ہی ہے نا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ چند مہینوں میں راضی نامہ ہو جائے گا اور مرد دوبارہ آزاد ہو گا۔ وہ بھی ایک ہیرو کی مانند۔

مردوں کو صرف ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ عورتیں آخر سبق کیوں نہیں سیکھتیں۔ مرتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر اگلے دن کوئی عورت پھر اپنی زندگی پر اپنا حق سمجھ بیٹھتی ہے۔ کوٹھے پر بیٹھنے کی بجائے ٹانگے کا لائسنس مانگتی ہے۔ یہ ان عورتوں کی ڈھٹائی ہے کہ یہ سلسلہ رکنے کو ہی نہیں آتا۔

اسی بارے میں

بس ہوسٹس کا قتل: ’میری بیٹی نے عزت بچاتے ہوئے جان دی‘

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik