بس ہوسٹس کا قتل: ’میری بیٹی نے عزت بچاتے ہوئے جان دی‘


’اس نے میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی مہوش کو گولی ماری تھی۔ ہم پہلے گھر پر دستانے بناتے تھے لیکن خرچ پورا نہیں ہوتا تھا پھر مہوش نے نوکری شروع کر دی۔ وہ میری بیٹی نہیں بیٹا تھی۔ اس نے اپنی عزت بچاتے ہوئے جان دی ہمیں انصاف چاہیے ہم کچھ نہیں جانتے بس ہمیں انصاف چاہیے۔‘

پنجاب حکومت نے چند روز قبل فیصل آباد کے بس اڈے پر بس ہوسٹس کے قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔

سرگودھا روڈ پولیس سٹیشن میں بس ہوسٹس مہوش ارشد کے قتل کا مقدمہ درج ہونے کے نو دن بعد پنجاب حکومت نے لواحقین کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے نوٹس لیا ہے۔

نو جون کی شب ساڑھے آٹھ بجے کے قریب سرگودھا روڈ پر واقع بس اڈے پر معمول کے مطابق مسافروں کی آمدورفت تھی۔ ملتان سے آنے والی مسافر بس کی ہوسٹس مہوش بھی اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے ٹرمینل پر اترائیں۔

وہ انپی والدہ اور ماموں سے ملاقات کے بعد اپنے ہوسٹل کی جانب بڑھ رہی تھیں لیکن اس سے قبل ہی انھیں کسی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

ایف آر کے مطابق گولی چلانے والا شخص مہوش کا سابقہ ساتھی، سکیورٹی گارڈ تھا۔

مہوش کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی بیٹی نے ابھی اٹھارہویں برس میں قدم رکھا تھا۔ پانچ سال پہلے اس کے ابو طویل بیماری کے بعد فوت ہو گئے تھے اور اب گھر چلانے کی ذمہ داری مہوش کے کندھے پر تھی۔

پولیس کے تحقیقاتی افسر جاوید اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ مہوش کے قاتل کوہستان ٹریول کے سابق سکیورٹی گارڈ عمر دراز کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اُن کے مطابق ملزم نے اقبال جرم کیا ہے اور کل اُسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بس ہوسسٹس اور عمر دراز کوہستان سٹار بس پر 18 ماہ تک اکھٹے سفر کر تے رہے تھے۔ عمر دراز مہوش کو شادی پر مجبور کرتا تھا۔ لڑکی نے وہ نوکری چھوڑ کرالہلال والوں کے پاس نوکری کر لی۔ اس دن بھی یہ ملتان سے واپس اتری ہے ہاسٹل جا رہی تھی۔ عمر دراز واش روم جا رہا تھا اس نے وہاں آ کر مہوش کا ہاتھ پکڑا اور مہوش نے جھنجوڑا تو اس نے اسے گولی مار دی۔‘

اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر متعدد بار شیئر کی گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص مہوش کا ہاتھ پکڑتا ہے اور جس پر وہ احتجاج کرتی ہیں اور کچھ ہی سیکنڈ میں انھیں گولی مار دی جاتی ہے اور وہ سیڑھیوں پر ہی گر جاتی ہے۔

لڑکی کی والدہ رمضانہ کوثر کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بھی کہا گیا ہے کہ مہوش نے عمر دراز کی شکایت کوہستان ٹریول انتظامیہ اور ہم سے بھی کی تھی کہہ وہ اسے شادی پر مجبور کرتا ہے۔

مہوش کے ماموں جن کے بقول وہ واقعے کے عینی شاہدین میں شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مہوش کو لوگوں سے پیسے لے کر کفن دیا۔ قاتل نے ایک نہیں چار افراد کا قتل کیا ہے کیونکہ وہ باقی تینوں کی بھی واحد کفیل تھی۔ مہوش کو اڈے انتظامیہ نے ہسپتال پہنچایا اور کہا کہ اب ہماری ڈیوٹی ختم ہو گئی تھی۔ نہ کسی نے جنازے میں شرکت کی اور نہ ہی کوئی تعاون کیا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اڈے کی انتظامیہ پوری فوٹیج نہیں دکھا رہی کیونکہ موقع پر موجود سکیورٹی گارڈ نے کچھ نہیں کیا اور قاتل نے گولی مارنے کے بعد وہیں کھڑے ہو کر سگریٹ پی اور موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔

گو کہ بی بی سی سے گفتگو میں مہوش کی والدہ نے کہا کہ وہ عمر دراز کو جانتی تک نہیں نہ ہی کبھی بیٹی نے اس کے بارے میں شکایت کی تھی۔

تاہم واقعے کی تحقیقات کرنے والے پویس افسر کا کہنا ہے کہ خاندان کی عزت کی وجہ سے بیان کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں بس سروس فراہم کرنے والی ایجنسیوں میں لڑکیوں کی تعیناتی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن خواتین بس ہوسٹس کی سکیورٹی کے حوالے کسی بھی سطح پر خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیا۔

اسی بارے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments