گدھوں کی ایک حکایت


چونکہ بچے اپنے والدین کو بھی مجبور کرتے لہذا کچھ والدین نے بچوں کا دل رکھنے کو مختلف گدھا گروپوں کے مارچ دیکھنے جانا شروع کردیا مگر زیادہ تر لوگوں کے پاس روزگار کی مصروفیت کے باعث اتنا وقت نہیں بچتا تھا کہ وہ روزانہ چار پانچ گدھا گروپوں کے مارچ دیکھنے جاییں لہذا جلد ہی گاؤں بھر کے لوگوں نے اپنا اپنا پسندیدہ گدھا گروپ چن لیا جس کو وہ روزانہ مارچ دیکھنے جاتے۔ یوں آہستہ آہستہ گدھوں کے علیحدہ علیحدہ گروپوں کو چاہنے والوں میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ لوگ اپنے اپنے پسندیدہ گدھوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں، پھول اور خوشبو وغیرہ لے کر جاتے۔ کئی لوگ باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ نقدی کے نوٹ بھی لانے لگے جو وہ گدھوں کے اوپر نچھاور کرتے۔

کرتے کرتے گدھوں کے مختلف گروپوں کو چاہنے والے بچوں میں بحث ومباحثہ سنجیدہ ہونا شروع ہوگیا۔ ایک گروپ کہتا کہ گدھوں کی فطری آواز ڈھینچک ڈھینچک ہوتی ہے، دوسرا کہتا نہیں ڈھانچک ڈھانچک ہے۔ اور تیسرا کہتا کہ ڈھونچک ڈھونچک ہی گدھوں کی اصلی اور فطری آواز ہے۔ دوسرں کو قایل کرنے کے لئے ہر گروپ نے اپنے اپنے گدھوں کے حق میں مقامی ماہرین حیوانات کی مدد سے ثبوت لانا شروع کردیے۔ یوں ماہرین حیوانات جن کو آج تک گاؤں میں کویٴ پوچھتا نہ تھا ان کی بھی چاندی ہوگیی۔ کوئی یہ بتاتا کہ کون سے آثار قدیمہ سے گدھوں کی اصل آواز کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے اور کوئی یہ کہ گدھوں کی تاریخ کی کونسی کتاب میں کیا لکھا ہے۔ تو کوئی سمجھاتا کہ دنیا کے کونسے صحرا میں گدھوں کی کونسی آواز آج بھی رائج ہے۔ ان ماہرین کے دلایل کو لے بچے جوش وخروش سے آپس میں بحث کرتے۔ یوں بحثیں کرتے کرتے کئی بار بچوں کی خوب ہاتھا پائی بھی ہوئی اور ان میں سے کئی خود کو زخمی کر بیٹھے۔

بچوں کی لڑایوں کو لے کر بہت سے والدین بھی آپس میں بول چال سے گئے۔ اور اب ہر گدھا گروپ کے حامیوں نے دوسرے گروپوں کو نیچا دکھانے کی غرض سے اپنے اپنے گدھوں پر حد سے زیادہ توجہ دینا شروع کردی۔ اور انہیں طرح طرح کی سہولیات پہنچانا شروع کردیں۔ لوگ خود بھوکے رہ لیتے مگر یہ پسند نہ کرتے کہ ان کے گدھوں کا کھانا کسی دوسرے گدھا گروپ سے کمتر ہو۔ کئی لوگوں نے تو اپنے آرام دہ کمرے اور بستر گدھوں کو دے دیے اور خود ادھر ادھر زمین پر سو رہتے۔ گدھے جن کو کبھی بھی اتنی وافر سہولیات زندگی اور عزت میسر نہیں آی تھیں خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔لہذا وہ اپنے چاہنے والوں کو خوش رکھنے کییلیے طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگے۔ کوئی چوغہ پہن کر مغرور عربوں کی طرح سر اونچا کرکے چلنے کی اداکاری کرتا، کوئی ٹوپی پہن کر ڈھینچک ڈھینچک کرتے ہوے ادھر سے ادھر بھاگا پھرتا۔ گاؤں کے بچوں نے اپنی ٹوپیاں اور عینکیں وغیرہ لا کر گدھوں کے حوالے کردیں جو گدھوں نے پہننا شروع کردیں،۔ یوں آپ کو گاؤں کی گلیوں سے گزرتے وقت ہری، سفید،کالی ٹوپیاں پہنے گدھے جگہ جگہ گھومتے دکھائی دیتے۔ کچھ گدھے پانچ پانچ دس دس کے گروپوں میں جھنڈے اُٹھاے دن بھر چاروں طرف مارچ کرتے پھرتے۔ جیسے وہ جلد ہی جنگ پر جانے والے ہوں۔ بیچ میں بہت سے سادہ مزاج گدھے بھی تھے جو کوئی ناٹک کرنے کی بجائے مزے مزے کے پھل اور کھانے کھا کرآرام سے سو رہتے۔ کچھ من چلوں نے گھروں میں لاوڈ سپیکر لگوا لیے اور یوں جب گدھوں کے گروپ اپنے اپنے انداز سے مختلف گھروں میں ڈھینچک ڈھینچک یا ڈھانچک ڈھانچک وغیرہ کرتے تو گاؤں بھر میں گدھوں کے شور کے علاوہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔

اس طرح مقابلہ بازی میں گاؤں کے لوگ اپنا زیادہ تر وقت گدھوں پر صرف کرنے لگے۔ اور کھیتوں میں کام کرنا کم سے کم ہوتا گیا۔ آخر کار ان کی آمدنی کم ہونا شروع ہوگیی اور کئی لوگ فاقوں کو پہنچ گیے۔ مگر گدھوں سے ان کی لگاوٹ کم ہونے کی بجاے بڑھتی گی۔ آخر کب تک یوں چلتا ایک طرف تو آمدنی کم ہوتی جارہی تھی اور دوسری طرف گدھوں کے اوپر خرچے بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ ضرورتیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے کیٴ لوگ اپنے اثاثے بیچنے شروع ہو گئے اور بہت سوں کو تو اپنے ٹریکٹر جو اتنے پیار سے خریدے تھے بیچنا پڑ گئے۔ جو کہ دوسرے گاؤں کے لوگ سستے داموں خرید کر لے گئے۔ کئی لوگوں نے اپنی زمینیں بھی بیچنے کی کوشش کی مگر اپنے گاؤں میں کسی کے پاس اتنے پیسے بچے نہیں تھے کہ وہ زمین خریدتا جبکہ دوسرے گاؤں سے آکر کوئی یہاں زمین خریدنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ گدھوں کے سارا دن شور کرنے کی وجہ سے اس گاؤں میں عام انسانوں کا رہنا مشکل ہوگیا تھا۔

جب لوگوں کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہ بچا تو ان کے لئے گدھوں کو کھلانا پلانا مشکل ہوگیا۔ شروع شروع میں تو لوگ عقیدت کی وجہ سے اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر گدھوں کو تھوڑا بہت کھانا وغیرہ پیش کرتے رہے مگر آہستہ آہستہ جب خود زندہ رہنا مشکل ہوگیا تو گدھوں کو کہاں سے کھلاتے۔

گدھے جو برسوں تک آرام و آسایش کی زندگی گزار کر اعلیٰ سہولتوں کے عادی ہوچکے تھے جب انہیں خوراک کی کمی پیش آنا شروع ہوی تو اپنے مالکان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوے۔ اور لگے ان سے بدتمیزی کرنے۔ کبھی کسی بچے کو پاس سے گزرتے دیکھ کر دولتی مار دیتے تو کبھی بوڑھے کو۔ کمروں میں لیٹے لیٹے لید کرتے رہتے۔ اگر گھر کی عورتیں کبھی بھول چوک سے گدھوں کے کمروں میں الماری وغیرہ سے کوئی چیز لینے چلییں جاتیں تو بُو کی وجہ سے ایک منٹ رکنا محال ہوجاتا اور سانس روکے باہر بھاگتیں۔ ایسے میں گدھے زور زور سے ہنہناتے جیسے کہ جان بوجھ کر ان کو تنگ کرنے کے لئے کر رہے ہوں۔ گاؤں کے بہت سے گھروں میں لوگ گدھوں کے رویے سے تنگ تھے اور ان کی دولتیاں لگنے سے کئی تو زخمی ہو کر ہسپتالوں میں جا پڑے تھے۔

 لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس مسئلے کا آخر کیا حل کیا جائے۔ جو لوگ گدھوں کی ڈھینچک ڈھینچک کو لے کے ایک دوسرے سے برسوں سے بولنا چھوڑ چکے تھے اس اجتماعی مصیبت کی گھڑی میں خود ہی بولنے لگے۔ اور روز سر جوڑ کر بیٹھتے کہ گدھوں کا کچھ کیا جاے۔ ایک دن یونہی گاؤں بھر کے لوگ بہت مدت کے بعد اکٹھے ہوکر بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھے سوچوں میں گم تھے کہ ایک بزرگ وہاں سے گزرے اور گاؤں والوں کو یوں سر جوڑے دیکھ کر بولے کہ کیوں بھئی تم لوگوں کو کیا غم کھائے جا رہا ھے۔ تو وہاں موجود بچے بولے بابا جی وہ گدھے قابو میں نہیں آ رہے۔ تو بزرگ نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوے کہا کہ تم لوگ بھی گدھے ہی ہو۔ بھلا گدھوں کو قابو کرنا بھی کوئی کام ہے۔ انہیں باربرداری پر لگاؤ خود ہی سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ بزرگ نے یہ کہا اور اپنے راستے پر چل دیے۔ گاؤں والوں نے سر اُٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر سب کے سب مسکرا دیے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہم بھی کیسے گدھے نکلے کہ اتنی آسان سی بات نہ سمجھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3