جئے مزدور، جئے کسان


\"khurramاگر میں آپ سے کہوں کہ آپ کے گھر سے باہر سڑک کوٹنے والا مزدور آپ کا رشتہ دار ہے یا ڈیزل سے کالے ہاتھ لیے آپ کی گاڑی کا پہیہ کھولنے والے شخص اور آپ میں کہیں مشابہت ہے اور جس بندہ نے من بھر آٹے کی بوری اپنے کندھے پر اٹھا کر آپ کے بنگلے تک پہنچائی ہے اس کی اور آپ کی حیثیت ایک ہی جیسی ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ اسے مذاق سمجھیں گے۔ اور شائد جلدی سے جاکر سٹور روم میں دھرے زنگ آلودہ ٹرنک میں رکھی پرانی ڈائری میں احتیاط سے تہہ شدہ اس بوسیدہ کاغذ کو بڑی عقیدت سے میرے سامنے لہرائیں گے جس میں ٹیڑھی میڑھی لکیروں اور عربی یا فارسی تحریر سے ثابت کیا گیا تھا کہ آپ کے جد امجد تینتیس پیڑھی پہلے ایک جلیل القدر بزرگ کی نسل سے تھے اور آپ کے خاندان کے تمام افراد سلطنتِ مغلیہ کی ملازمت کے بعد انگریزوں کے ساتھ عہدِ وفاداری نباہ کر با عزت پیشوں سے وابستہ رہے۔

 جناب ِ من انسانی معاشرہ کوئی ساکت و جامد شئے نہیں بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہونے والی حقیقت ہے۔ صرف پچھلے دو سو سالوں میں جو تغیرات برپا ہوئے ہیں وہ حیران کن ہیں – ہمارا لباس، مکانات، آمد ورفت کے ذرائع ، خوراک، اطوار سب بدل چکے ہیں۔ ان سب تبدیلیوں کا جنم اٹھارویں صدی میں اس صنعتی انقلاب کی کوکھ سے ہوا جس کی بناء برطانیہ میں پڑی اور اسی کے طفیل یہ چھوٹا سا جزیرہ پوری دنیا پر اس طرح حاوی ہو گیا جس کی نا پہلے کوئی مثال تھی نہ آج ہے۔ مزدور طبقہ کا ظہور اسی صنعتی انقلاب کا نتیجہ تھا جن کے آقا سرمایہ دار کہلاتے تھے۔ جو اپنے پیش رو غالب طبقہ یعنی جاگیر داروں سے بظاہر تو مختلف تھے لیکن محنت کشوں کا خون چوسنے میں ان سے دو ہاتھ آگے۔ اس کا فطری نتیجہ مزدوروں کی انقلابی تحریکیں تھیں جنہوں نے پورے یورپ اور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 1871ء میں تو مزدوروں نے پیرس میں اپنی حکومت تک قائم کر لی تھی۔

مارکسزم جو نہ کوئی مذہب ہے نہ کفر و الحاد کے عقائد کا مجموعہ در اصل دو جرمن فلاسفر یعنی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس کے ان نظریات کا نام ہے جو دونوں نے بڑی عرق ریزی اور تحقیق و جستجو کے بعد اپنی مایہ ناز تصانیف میں رقم کیے۔ یہ خیالات دنیا بھر کے مفکرین، سیاسی کارکنوں اور فنکاروں میں ایسے مقبول ہوئے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ کچلے ہوئے طبقات اور مقبوضہ ممالک میں ان تصورات کا چھا جانا تو ویسے بھی اچھنبے کی بات نہ تھا۔ روسی انقلاب اور دو عالمی جنگوں کے دوران تو ایسا لگتا تھا کہ پوری دنیا مزدورں کے انقلاب سے ہمکنار ہو گی لیکن پھر سرمایہ داروں نے بہت چالاکی سے جبر و تشدد اور پرو پیگنڈہ کے زور پر خود کو اپنے انجام سے بچا لیا۔

 آج کی ترقی یافتہ دنیا میں چاہے بات مفت تعلیم اور مفت صحت کی ہو، شخصی آزادیوں کا قصہ چھیڑا جائے، مرد اور عورت میں مساوات کی حمایت ہو، معاشروں میں انتہا پسندی، نسل پرستی اور تنگ ںظری کی مزاحمت ہو، اسلحہ کے پھیلاؤ اور جنگ و جدل کے خلاف جدوجہد حتیٰ کہ مٹھی بھر حریص انسانوں کی وجہ سے دنیا کے عام عوام پر موسمیاتی عدم توازن سے آنے والی قدرتی آفات پر عوامی شعور کی بیداری کی مہم– سب کا ظہور ان عوامی نظریات کے بطن سے ہوا ہے جو فیکٹریوں کی ملکیت مزدور کو اور کھیت کھلیان کا اختیار دہقان کو دینے کے متقاضی ہیں۔ جیسے ہی اس شعور میں کندی آتی ہے ہر طرح کی آزادیاں سلب کرنے کی سازشوں میں بھی تندی آجاتی ہے۔ پاکستان کی بات چھوڑیں خود برطانیہ اس عمل کی بہترین مثال ہے جہاں چند سالوں سے مسلسل کبھی ایک بہانے کبھی دوسرے وائٹ کالر اور بلیو کالر ورکرز کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔

آپ کا زیادہ وقت لیے بغیر میں آپ کو بتا دوں کہ اس ںظامِ ہستی میں اگر آپ ڈاکٹر، انجینئر، صحافی ، فنکار یا وکیل ہیں تو آپ بھی در اصل ایک مزدور ہیں فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن یا پی ایم۔ اے، بار ایسوسی ایشن، پی یو ایف جے اور آرٹس کونسل آپ کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے۔ صبح سے شام بھاگ بھاگ کر آپ کے جوتے گھس جاتے ہیں لیکن عوض میں آپ کو لوئر مڈل کلاس کا مقام بھی نہیں ملتا، آپ خود مزدور ہیں لیکن مزدوروں سے آپ کو کراہیت اور گھن آتی ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر ان کو بھی انجمن سازی کا حق ہو اور وہ بھی کسی کم از کم تنخواہ کے حقدار ٹھہریں تو شائد آپ کو بھی سروس سٹرکچر کے مطالبے پر سڑکوں پر لاٹھیاں نہ کھانی پڑیں۔ جب آپ ملک کی اسی فیصد آبادی جو غربت کی لکیر سے نیچے سسک رہی ہے سے رشتہ بنائیں گے تو فائدہ آپ ہی کو ہوگا۔

یاد رکھیے گا کہ مہذب دنیا میں قابلِ بھروسہ شجرے صرف کتوں اور گھوڑوں کے ہوتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments