رؤف کلاسرا راتوں رات بے باک صحافی سے لفافہ خور ہو گئے؟


لطیفہ یاد نہیں کہاں سنا لیکن ہے پرانا۔ ہوتا یوں ہے کہ اپنی ماں کے پاس بیٹھا پانچ چھ سالہ بچہ اچانک پوچھتا ہے۔ “ماں میں اس دنیا میں کیسے آیا؟”۔ ماں اس غیر متوقع سوال پر چونک اٹھتی  ہے لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر بچے کو بتاتی ہے کہ اس کے ابا مچھلیاں شکار کرنے دریا پر گئے تھے، وہاں مچھلیوں کے ساتھ آپ کو بھی پکڑ کر گھر لے آئے۔ بچہ نے ماں کی بات کو زیادہ لفٹ نہیں کراتا اور پاس کھیلتے اپنے چھوٹے بھائی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھتا ہے، “اور یہ؟”۔ ماں سہم گئی اور پھر بولی کہ بیٹا یہ تو ایک ملنگ بابا کبھی کبھار ہمارے دروازے پر آتے ہیں، آپ کے بابا اناج اور کچھ ہیسے اللہ کے نام پر دے دیتے ہیں۔ ایک دن درویش بابا نے خوش ہو کر اپنے زنبیل سے تمہارا بھائی  نکال کر ہمیں دے دیا۔ بچہ کہاں خاموش ہونے والا تھا، ماں کی گود میں پڑی اپنی چھوٹی بہن  کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے متعلق پوچھ لیا۔ ماں اس دفعہ ہڑبڑائی اور قدرے غصے سے بولی، اسے ایک باز اپنے پنجوں میں اٹھائے ہمارے گھر کے اوپر سے گزر رہا تھا، کہ یہ نیچے گر پڑی۔ آپ کے بابا نے جونہی اس کو نیچے آتے دیکھا، بجلی کی طرح لپک کر اسے کیچ کر لیا۔ بچہ خاموش ہوگیا، ماں نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ بچہ بول پڑا “اماں اس کا مطلب ہے کہ ہم تینوں میں سے کوئی بھی نیچرل طریقے سے اس دنیا میں نہیں آیا”

کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ زمانے کے انداز بدلے گئے، بچے بڑے ہوگئے، دنیا تبدیل ہوگئی، نمہیں بدلے تو ہمارے سیاستدان اور ان کے اندھے حامی۔ یہ لوگ بڑے ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

ایک دوسرے کو لعن طعن ان کی مرغوب غذا ہے۔تضادات کے مارے ہوئے، ذاتی خواہشات کے اسیر۔ اپنے مفادات سے اوپر اٹھنے کی ان میں اہلیت ہے نہ حوصلہ۔ جھوٹ تو جیسے ان کی سرشت ہے۔ شرم و حیا کے طعنے بہت دیتے ہیں لیکن حقیقتاً کوئی شرم و حیا نامی چیز اِن کی اکثریت میں نہیں پائی جاتی۔ سیاستدانوں سے تو کچھ بھی بعید نہیں لیکن ان کے یہ حامی، توبہ توبہ!  جس کے بھی خلاف لکھو، ایک طوفانِ بدتمیزی کے لئے تیار ہوجاو۔ عمران خان تو جیسے معاذاللہ، آسمان سے اتری کوئی چیز ہو۔ تنقید کے دو لفظ خان صاحب کے متعلق لکھیں اور اپنی سات پشتوں کی بے عزتی کے لئے تیار ہوجائیں۔ یہ لوگ آپ کے ماں باپ کو قبروں سے نکال چھوڑیں گے۔  میرے خیال میں یہ افسوسناک روئے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لیڈرز اور کارکن نیچرل طریقے سے سیاست کی دنیا میں نہیں آئے۔

ایسی بھی کیا بات ہے خان صاحب میں؟ کیا کوئی مامورِ من اللہ ہے؟ آسمان سے ان کے حق میں کوئی بشارت اتری ہے؟ رؤف کلاسرا صاحب نے پچھلے پانچ سال میں نواز حکومت کا ناک میں دم کئے رکھا۔ سکینڈلز پر سکینڈلز بے نقاب کرکے نواز حکومت کو بری طرح ایکسپوز کیا۔ کلاسرا صاحب اور دوسرے صحافیوں کی سٹوریز کو بنیاد بنا کر عمران خان نے کرپشن کے خلاف اپنی  تحریک کو توانا کیا۔ بجا کہ اس جنگ کے سپہ سالار عمران تھے لیکن خان کے دستے کو توانائی صحافیوں کی ان تھک محنت فراہم کرتی رہی۔ رؤف کلاسرا بےخوف اور نڈر رپورٹنگ کرتے رہے  اور تحریکِ انصاف کی آنکھوں کے تارے بن گئے۔ اب جب قلم کی زد پر عمران خان آئے ہیں تو کلاسرا صاحب راتوں رات بکاو صحافی ہوگئے ہیں۔ انہیں لفافے ملنے کے راز کھل گئے ہیں۔ کلاسرا صاحب پیسے کے لئے بروئے کار آتے تو ہمیشہ حکومتِ وقت کے خلاف کیوں لکھتے؟ وہ بھی ایسی حکومتیں جو ‘مل کر چلنے’ پر یقین رکھتی ہوں اور عوام کے پیسے لوٹنے اور لٹانے کے معاملے میں بے پایاں فیاض ہوں۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ مال بنائیں سیاستدان اور ان کے شریکِ جرم دوست لیکن ان کا دفاع کرنے آگے آئیں ورکرز۔ دفاع کیا؛ بس گالیاں دینے اور عزتیں اچھالنے۔ حیران ہوتا ہوں کہ ان لوگوں کی کیا تربیت ہوئی ہے؟ ہوئی بھی ہے  یا ان کو دنیا میں لا کر چھوڑ دیا گیا ہے؟ خان صاحب بجا کہ موجودہ حالات میں  نسبتاً بہتر آپشن ہیں لیکن پاکئی داماں کی حکایت اتنی بھی نہیں بڑھانی چاہئیے کہ  خوامخواہ لوگوں کی نظر، دامن کے داغوں پر پڑے۔ ورکرز اگر واقعی تبدیلی کے معاملے میں مخلص ہیں تو انہیں رفو گری سے گریز کرنا چاہئیے کہ  علاج اور نجات، جامۂ صد چاک کے اتار پھیکنے میں ہے۔ ابھی تو مزید تنقید ہونی ہے۔ اگر ریحام اور اس کی کتاب جیسے معاملات ازسرِ نو وائرل نہ ہوئے اور اللہ کرے نہ ہوں تو بات ہوگی پختونخوا میں پانچ سالہ کارکردگی کی۔ پرویز خٹک نے گزشتہ پانچ سالوں میں تبدیلی کا جس طرح مزاق اڑایا ہے، اُس کی۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ پورے پختونخوا میں اس وقت 35 لاکھ بچیوں کے لئے صرف 722 سکول ہیں، جی ہاں صرف 722۔ صرف باون فیصد بچیاں سکول جاتی ہیں۔ 36 فیصد بچیاں زندگی بھر سکول کا منہ نہیں دیکھ پاتیں۔ صرف 17 فیصد مڈل جبکہ اس سے بھی کم صرف آٹھ فیصد بچیاں ہائی سکول جا پاتی ہیں۔ پانچ سے سولہ سال کی عمر کی باون فیصد بچیاں آج بھی سکول سے با ہر  ہیں جبکہ مجموعی طور پر 68 لاکھ بچے سکول نہیں جا پاتے۔

خان صاحب کی بلیک بیری کا بہت چرچا ہے، کیا کسی کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے ایک اہم لیڈر جو کہ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، بھی خفیہ رکارڈنگ کے شوقین ہیں، ریکارڈنگ بھی کسی اور کی نہیں اپنے خان صاحب کی۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں پختونخوا کے وزیراعلی نے نوشہرہ کے دیہات میں جو بھی عوامی اجتماعات کئے، سب میں ایک امر مشترک تھا۔ ان میں جس بھی بندے  کو اظہارِ خیال کا موقع ملا ایک بات ضرور کی ” میں پرویز خٹک کا ساتھی ہوں، مجھے کسی اور سے کچھ لینا دینا نہیں۔ خٹک صاحب جدھر جائیں گے، میں بھی ادھر جاؤں گا”۔ شروع میں، میں نے اس کو خوشامد اور چاپلوسی کلچر کا نتیجہ سمجھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ باقاعدہ وزیراعلی کی تاکید تھی کہ عوام پر رعب قائم ہو اور وقتِ ‘پرواز’ کام آئے۔ کیا یہ ہوتا ہے وفا شعاروں کا رویہ؟ جس کی بدولت وزیراعلی بن بیٹھے اس پر خود کو ترجیح اور اپنے چیلوں کے ذریعے اس کا کھلم کھلا اعلان اور تشہیر۔ سرکاری وسائل کی تقسیم میں اپنے ذاتی وفاداروں کو نوازنے کے بعد یہ بات یقینی بنانا کہ پی ٹی آئی کے ان حامیوں کو حصہ ملے جو فرزندانِ وزیراعلی یا ان کے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کیلئے تیار ہوں۔ کیا یہ ہوتی ہے تبدیلی؟

حیرت ہے تبدیلی کے علمبرداروں کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگی۔ کبھی اپنے محاسبے کی ضرورت پیش نہ آئی لیکن نیب کو کرپشن میں مطلوب ایک بلیک لسٹ آدمی کیساتھ پرائیویٹ جہاز میں کروڑوں خرچ کر کے مکہ اور مدینہ جیسے مقدس ترین مقامات کی زیارت کے لئے تمام قاعدے اور قوانین بالائے طاق رکھ کر اڑان بھرنے پر جب بجا تنقید ہوتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ بندگانِ خدا عمران خان سے محبت ضرور کرو، ان کو ووٹ بھی دو اوروں کو مائل بھی کرو قائل بھی کرو لیکن ان کو دیوتا مت بناؤ، ہم نے بہت سوں کو بھگت لیا، ہمیں اب کوئی بادشاہ نہیں چاہئے

شانِ جمہور تو تب ہے کہ ہر انسان کہے

میرا حاکم میرا حکم بجا لاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).