فلتھ جنریشن وار


آج کل ہائی برِڈ وار یا ففتھ جنریشن وار کا بہت چرچا ہے۔ اب سنجیدہ اور غیر سنجیدہ حلقوں میں بھی اس جنگ پر سنجیدہ باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ میرا ذاتی خیال مگر یہ ہے کہ یہ ففتھ جنریشن وار کی بجائے فلتھ جنریشن وار ہے۔ اس میں گندی ذہنیت رکھنے والے گند اچھالتے پھرتے ہیں۔ وہ عمران خان ہوں، وہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری ہوں، وہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز وغیرہ ہوں، وہ صحافی ہوں یا پھر وہ ریاستی ادارے مثلاً عدلیہ اور افواج پاکستان ہوں بلکہ وہ کوئی بھی ہوں گندی ذہنیت رکھنے والوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

کوئی گٹر کی مانند ابلتا ہوا ذہن اپنی انگلیوں کو حرکت دیتا ہے اور سوشل میڈیا پر گند انڈیل دیتا ہے۔ چسکہ بازی کی ماری ہوئی ہماری قوم سوچے سمجھے بغیر اس کو لے اڑتی ہے اور پھر نادیدہ دھول اڑنی شروع ہو جاتی ہے۔ ہم یہ سوچتے اور سمجھتے ہی نہیں کہ آرام سے اپنے بستروں یا آرام دہ صوفوں یا نرم کرسیوں میں دھنسے ہوئے ہم لوگ محض پانچ یا دس سیکنڈ میں جو بات آگے پہنچا رہے ہیں آیا وہ درست ہے بھی یا نہیں۔ تصدیق کرنا تو بہت دور کی بات ہے اگر کوئی ہم سے پوچھ ہی بیٹھے کہ جو تم نے بھیجا کیا یہ سچ ہے تو ہم اسے کاٹ کھانے کو دوڑ پڑتے ہیں۔

ہم خود کو صداقت اور دیانت کے اس مقام پر فائز کر چکے ہیں جہاں سے ہمیں ہم سے اختلاف کرنے والا ہر فرد یا تو کافر لگنے لگتا ہے یا پھر اس کی حب الوطنی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس سے نیچے تو ہم سوچتے ہی نہیں ہیں۔ گالم گلوچ ہماری زبانوں کے ساتھ ساتھ ہماری انگلیوں کی پوروں پر ناچتی پھرتی ہیں اور ہم فخریہ انداز میں دھڑلے سے دوسروں کی ماں بہن ایک کرتے رہتے ہیں۔ ارشد شریف اور رؤف کلاسرہ جیسے نام ور صحافی جب تک مسلم لیگ نواز کی کرپشن پر بات کرتے رہے تحریک انصاف والوں کی آنکھوں کا تارہ بنے رہے اور مسلم لیگ نواز والے ان پر لعنت ملامت کرتے رہے۔ کچھ دن سے انہوں نے عمران خان کے بعض اقدامات پر سوال اٹھانے شروع کیے تو تحریک انصاف کی توپوں کا رخ ان کی جانب ہو گیا اور مسلم لیگ نواز والے ان کی حمایت میں کمر کس کر میدان میں اتر آئے۔

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر ہر ایک کے بارے میں بے ہودہ گوئی کر رہے ہوتے ہیں؟ کبھی آپ کو ان میں جانے پہچانے لوگ نظر آتے ہیں؟ جب نظر آتے ہیں تو بجائے ان کی پوسٹ کو شیئر یا ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے کے آپ ان سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یا آپ بس اپنے جانے پہچانے نام کو دیکھ کر اندھا دھند اس کی بات کو آگے بڑھا دیتے ہیں؟

یہ ہم ہیں۔ یہ ہم سب ہیں۔ یہ میں ہوں، یہ آپ ہیں، یہ آپ کے بھائی ہیں، یہ میرے کزن ہیں، یہ آپ کے دوست ہیں اور یہ میرے رشتہ دار ہیں۔ اور ہمیں صرف شغل چاہیئے۔ ہم اپنے شغل کی خاطر کسی کے بھی کپڑے بھرے چوک میں اتارنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہماری دو منٹ کی بے ہودہ سی خوشی بعض اوقات کسی کی جان، عزت نفس اور آبرو سے زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے۔

عمران خان نے ننگے پاؤں عمرہ کیا تو ہمارے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو گئے۔ کلثوم نواز صاحبہ وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر ہماری تسلی ہی نہیں ہو پا رہی اور ہمیں یہ ڈرامہ لگ رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے دوسری شادی افشا کی تو ہم نے دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیا۔ کمال ہی ہو گیا ہے۔ ہم سیاسی عداوتوں میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہمارے نزدیک انسانیت، شخصی احترام اور دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کرنے کا اصول بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔

آپ کبھی مشاہدہ کریں جہاں کوڑے کرکٹ اور گند کا ڈھیر لگا ہوتا ہے وہاں آوارہ کتے بلیاں گند کو سونگھتے پھرتے ہیں اور اپنی مرضی کی چیزوں کو منہ میں دبا کر ایک طرف جا بیٹھتے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہی حال ہماری قوم کا سوشل میڈیا پر ہو چکا ہے؟ ہم بھی صرف اور صرف گندگی ڈھونڈتے ہیں اور جیسے ہی ہمیں ہماری من پسند گندگی مل جاتی ہے ہم اسے منہ میں دبا کر ایک طرف لپکتے ہیں اور پھر کونے میں بیٹھ کر اس گندگی کو نہ صرف اپنے اندر اتارنے لگتے ہیں بلکہ آوارہ کتے بلیوں کی طرح اپنے اردگرد پھیلانے بھی لگتے ہیں۔

ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ دین اسلام حلال اور طیب خوراک کھانے کی تلقین کرتا ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں جو حلال اور طیب باتوں سے کراہت کھاتے ہیں اور تعفن زدہ گلی سڑی باتوں سے خوش ہوتے ہیں۔ آئیے مل کر خوشی منائیے کہ ہمارا تو رمضان بھی کچھ نہیں بگاڑ سکا بلکہ شیطان کی سالانہ قید سے فائدہ اٹھا کر ہم نے خود کو شیطان کا اہل جانشین ثابت کر دیا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad