ہر روز نئی خبر اور نیا امتحان دینا پڑتا ہے


ہم صحافیوں کی زندگی بھی بہت عجیب ہے، روز ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ ایک اچھے صحافی ثابت ہوسکتے ہیں ہر روز نئی خبر اور نیا امتحان دینا پڑتا ہے۔ دن کی بڑی خبر کے ساتھ کھڑے صحافی سے رات ہی کو پوچھ لیا  جاتا ہے کہ آج کے لیے ٹھیک ہے؛ پر کل کیا دے رہے ہو؟

ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی سمندر کے ساحل پر بیٹھ کر ایک  طویل محنت و مشقت  کے بعد ایک گڑھا کھودا جائے اور اگلے ہی پل اس کو سمندر کی ایک لہر آ کے بھر دے؛ پھر نئی خبر کی تلاش نئے گڑھے کی تلاش معلوم ہوتی ہے، جسے سمندر کی لہر نے آ کے پھر سے بھر دینا ہے

چاند رات کا دن، آخری روزہ ایم کیو ایم کا اجلاس طلب، علی رضا عابدی کا بہادرآباد میں چاند رات منانے کا اعلان اور پھر نئی خبروں کا سلسلہ شروع۔ میرا کرتا شلوار آ چکا تھا بال کٹوانے باقی تھے؛ بہنوں کو منہدی لگوانے لے جانا تھا۔ امی کا سامان بازار سے لے آنا تھا۔ تھوڑا سا وقت ہی تو نکالنا تھا، مگر افطار سے قبل ایم کیو ایم کے مرکز پہنچنا پڑا فون کی قطاریں لگنا شروع  ہوئیں۔ کیا ہونے والا ہے؟ اگلی خبر کیا ہے؟ کون کون موجود ہے؟ پتا کرو، لائیو ہٹ میں کیا دے رہے ہو؟ اندر سے کچھ نکالو۔ افطار کا وقت قریب ہم ایم کیو ایم کے رہنماوں کے قریب۔ ہنستے ہوئے سوال کیا:
”اج آخری افطار ہے، کل عید ہے، اس بار کھجوریں واقعی میٹھی آرہی ہیں یا کڑوی“؟
جواب ملا، ”کیا  آج آ بھی رہی ہیں“؟

یہاں ایم کیو ایم کے دیگر رہنماوں کا مرکز پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا، وہاں خبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہادر آباد میں کون کون آگیا، پی آئی بی کے اجلاس میں کون نہیں آیا؟ پی آئی بی میں لڑائی کس بات پر ہوئی؟ کس کو کیا بات بری لگی؟ فاروق ستار آئیں گے بھی یا نہیں؟ وہ نہیں آرہے پی آئی بی میں بغاوت نے جنم لے لیا ہے؟!
کسی کو فون کیا، تو جواب ملا؛ وہ ضرور آئیں گے۔
الیکشن کے ٹکٹوں کا مسئلہ ہے یا پارٹی کو متحد کرنا ہے؟

دوسری طرف گھر سے فون آیا، آج تو وقت پر آجانا تھا؛ بہنوں کو مہندی لگوانا تھی۔ سامان لانا تھا۔ عید کی تیاری کرنا تھی۔ ایک دوست سے ملنا تھا۔ مگر وقت گزرتے گزرتے رات دو بجے سے اوپر چلا گیا۔ فاروق ستار نہیں آئے آدھا میڈیا جا چکا؛ آدھا جانے کو تیار۔

ادھر ایم کیو ایم رہنما اور ذمہ داران بھی بہادر آباد کے مرکز سے نکل کر گھروں کو جانے لگے۔ میں اور سما کے رپورٹر علی حفیظ کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں میرا فون بجا؛ کہا گیا ابھی  جائیے گا نہیں۔ اسی اثنا میں احمد چنائے مرکز سے  نکلتے ہوئے دیکھے گئے۔

فون ملایا، معلوم کرنے کی کوشش کی، کیا احمد صاحب اپنے ہی گھر جارہے ہیں؟
جواب ملا ”اپنے“ کے گھر جارہے ہیں۔

اگلی خبر مل چکی۔ فوراً ادارے کو آگاہ کیا، ”فاروق ستار کچھ دیر میں بہادرآباد میں ہوں گے“۔ ایسا ہی ہوا۔

آخری افطار میں بالآخر کھجوریں آگئیں، پر اوپر سے میٹھی دیکھنے والی، اندر سے کڑوی نکلیں“۔
رات 4:30 بجے گھر واپسی ہوئی؛ سب سو چکے تھے۔
بہنوں کے ہاتھوں میں منہدی لگ چکی تھی؛ عید کا سامان بھی آ چکا تھا۔ دوست سے معذرت کر چکا تھا؛ بال نہیں کٹوا سکا۔ بس اپنوں کے ”بغیر“ چاند رات گزار دی۔

عید کا پہلا دن، عید کی نماز ادا کی۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ سب خوشیاں منا رہے تھے۔ دوستوں اور رشتے داروں سے ملنے کے پلان تیار ہورہے تھے۔ میں دادی سے ملا اور دس بجے شدید نیند کے آگے ہتھیار ڈال دیے، کیوں کہ  شام چار بجے عید کے پہلے دن پھر آفس پہنچنا تھا، مگر شام پانچ بجے فون کی گھنٹی سے آنکھ کھلی، اسکرین پر نئی خبر ظاہر ہوئی۔ ”ابو الحسن روڈ پر پولیس اور ڈاکووں کی فائرنگ کے تبادلے میں ایک گولی معصوم  نوجوان مصعب کے سر میں پیوست ہوگئی ہے، جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا؛ والد معذور ہیں۔ عید پر اپنے رشتے داروں کے گھر گاڑی میں جارہا تھا، کہ یہ درد ناک واقعہ رونما ہوگیا۔ اب لاش کو عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا ہے“۔
عباسی شہید اسپتال پہنچے تو خون میں لت پت نوجوان کی لاش دیکھی؛ اہل خانہ کے آنکھوں سے آنسو اور لاش سے خون ٹپک رہا تھا۔

ایک دوست ضبط تھامے بیٹھا تھا۔ ادارے کے لیے ”ایز لائیو“ کرنا تھا۔ مجھے اس سے پوچھنا تھا کہ یہ کیسا لڑکا تھا، قصور کس کا تھا؛ معاشرے کا تھا، پولیس کا تھا یا اس وقت کا تھا، جس وقت میں ایک ماں سے اس کا بیٹا، بہن سے بھائی اور دوستوں کا دوست عید کے پہلے دن ان کو روتا اور تڑپتا چھوڑ گیا۔

میرے لیے یہ نئی خبر اور ایک نیا امتحان تھا، جو مجھے عید کے پہلے دن دینا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).