فادرز ڈے مبارک ابی جی


یہ اک ماں کی نہیں، اک باپ کی کہانی ہے ۔ اک سخت گیر باپ کی جس کی دفتر سے گھر کے گیٹ پر آمد ہم ساروں کو بھگا کر اپنے کمروں میں پہنچا دیتی، باجیاں دوپٹے اوڑھ لیتیں، بھائی تابعدار ہو کر کمروں میں کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے۔ کوئی اجازت کوی فرمائیش کوئی ضرورت طلب کرنا اک مسلئیہ تھی کون کہے کیسے کہے۔ ڈانٹ پڑے یا نہیں والد صاحب کا خوف اور رعب اس قدر زیادہ تھا کہ انکا راتوں کو ہماری رضائییاں سیدھی کرنا، گھر میں فروٹس اور میوہ جات کے ڈھیر اور مہنگے مہنگے برانڈڈ ملبوسات اور اشیاء صرف پر کیا گیا خرچ کبھی دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔ ڈانٹ ڈپٹ ایسی بھرپور اور کڑی لگتی کہ اسکے بعد پاس بٹھا کر پیار کرنا پھر آئس کریم کھلانا ہمیں دکھائی ہی نہ دیتا ۔ کسے خبر تھی اتنے سخت گیر باپ کے اندر اک ماں سے بھی نرم اک بلند حوصلہ باپ اور لوہے کا جگر ہے، جو اک ماں سے بھی بڑھ کر اپنی اولاد کو پروں میں چھپا لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر میں نے اور میرے سب بہن بھائییوں نے ہمارے باپ کا وہ رخ دیکھا کہ سب نے منہ میں انگلیاں داب کر اپنے ہی دانتوں سے کاٹ لیں۔ اتنا صبر، اتنا ظرف، اتنا حوصلہ اتنی شفقت میرے روایتی باپ میں کہاں سے آیا۔ مجھے کسی دوست نے کہا کہ آزمائش صرف ایک انسان پر نہیں آتی ان سے متعلقہ لوگوں پر بھی ساتھ آتی ہیں اور انہیں پرکھتی ہیں۔ آزمائش مجھ پر آئی تھی مگر کامیاب و کامران ہو کر اس میں سے میرے والد صاحب نکلے تھے۔ ایسے کہ عمر بھر کے لئے زندگی کی طرف اور انکی ذات کے لئے انہوں نے میری راے اور رویہ بدل دیا۔ یہ تب کی بات ہے جب گریجویشن کے امتحان میں اک زرا سی غلطی سے ناکام ہو گئیی اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوی اور خود اپنے لئے، اپنے گھر ، ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے نہیں اگلے تین سالوں تک کے لئےعذاب جان بن گئی۔

مجھے یاد ہیں وہ شامیں جب ٹیرس پر میرا ہاتھ پکڑے سخت سردی میں ابی مجھے گن کر بیس چکر کی واک کرواتے تھے اور میں نیند کی گولیوں کے اثر میں سکڑی سمٹی ہلنے سے گھبراتی اور ہوا سے بھی ڈرتی تھی۔ ڈاکٹر کہتا اسے زندگی کی طرف راغب کریں، جسمانی ورزش کروائییں تا کہ اسکا جسم اور دماغ صحت کی طرف لوٹے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے واک کرواتے اور ساتھ ساتھ پیار سے میٹھے میٹھے نرم لہجے میں مجھے سمجھاتے کہ

موجوں سے لڑو تند لہروں سے الجھو،

چلو گے کہاں تک کنارے کنارے،

سفینے وہاں ڈوب ہی جائییں گے،

حوصلے ناخداوں نے جہاں ہارے!

اور وہ کوئی پرتعیش دفتر کے جی ایم نہ تھے، نہ میں ان کی تنہا اولاد تھی جو وہ اتنی بالخصوص توجہ مجھے دے پاتے۔ وہ اک سرکاری محکمے کی اہم پوسٹ پر بیٹھے ایمان دار افسر تھے اور چھ بچوں کے باپ تھے۔ سارا دن سرکاری نوکری کی چخ چخ، شام کو مجھے لئے ڈاکٹروں کے، حکیموں کے درگاہوں کے چکر، رات بھر میرے سرہانے بیٹھ کر وظیفے اور دعائییں اور اگلی صبح پھر آفس۔۔۔۔ کتنے مہینے میرے سرہانے ہر وقت ان کے پڑھے پانی کی بوتل میرے ساتھ رہی جس پر دعائییں پڑھنے والی ذات کسی مولانا کسی پیر فقیر کی نہیں میرے باپ کی تھی، تبھی اس کی تاثیر زیادہ تھی۔ میری سوچ اور خیال کے سب حرف مٹ چکے تھے

انہوں نے اپنی جرات سے اس پر نئی تحریر لکھ دی۔

میرے شعور اور الفاظ میں کوئی ربط نہ تھا مگر اسکے باوجود بھی وہ میری ہر مشکل سمجھتے تھے۔ جب لوگ میرے لفظوں پر ششدر رہ جاتے، اور نظریں گھماتے، چہ میگوئیاں کرتے، ہنستے اور باتیں بناتے کہانیاں گھڑتے، وہ آگے بڑھ کر مجھے تھام لیتے، مجھے لوگوں کی زبانوں اور نظروں سے محفوظ کرتے اور میری طاقت بن کر کھڑے ہو جاتے۔

میں دنیا جہاں سے بے خبر اور میرے باپ کا صبر٬ انکی ریاضت، آج میری خالی سلیٹ پر اگر لفظ ابھرتے ہیں تو ان حرفوں کے پیچھے، میرے وجود کا باعث، اگر میری زندگی اور میرے ہونے کی وجہ کوئی ہے ، خدا کے بعد، تو وہ میرا باپ ہےجس نے اس وقت مجھے سہارا دیا جب ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ، جب کامیابی اور زندگی تک مجھ سے خفا تھی، جب امید اور رستے تک مجھ پر دور کھڑے ہنستے تھے، دوست احباب مجھ سے آگے نکل گئے تھے اور شعور، لاشعور تک مجھے ٹھکرا چکے تھے، میرے روایتی باپ نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، مجھے حوصلہ دیتے ہوے، مجھے دنیا سے بچاتے ہوے، میرے ساتھ کھڑے ہوے، مجھے نہ صرف گری ہوئی کو اٹھایا بلکہ ایک بار پھر زندہ کر کے زندوں میں سر اٹھا کر کھڑا کر دیا۔ کئی ماہ کے ساکن دماغ میں اگر کچھ زندہ رہتا تھا تو وہ میرے باپ کے وہ فقرے وہ حوصلے تھے جو وہ لمحہ لمحہ مجھ میں انڈیلتے رہتے ورنہ دل دماغ کی ہر سلیٹ دھل چکی تھی۔ میں زندگی سے خفا دنیاسے ہر ناطہ توڑنا چاہتی وہ مجھے پکڑ کر دنیا کے سامنے کردیتے۔ میں پیچھے ہٹتی وہ میرا بازو تھام کر آگے نکلتے۔ مجھے زندہ کرنے کی سب کوششش انہی کی تھی ورنہ میں تو اپنے خواب تک ہار چکی تھی۔ میں خود پر پیشماں تھی اور ہستی کو بیکار اذیت سمجھتی، وہ میری زندگی کو رنگ دینے، اسے مقصد بنانے اور خواب دینے کا حوصلہ کرتے۔ مجھے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر سے اٹھنا سکھایا چاہے اسکے بدلے خود انکے دامن میں کیسے ہی خسارے آے ہوں۔ پھر سالوں بعد میرا دماغ اور دل سانسیں بھرنے لگا، زندگی کی نبض دھیرے دھیرے ہلنے لگی، زندگی پٹری پہ آئی اور بالآخر چلنے لگی۔ اور تب میں نے مڑ مڑ کر ہزار بار اپنے باپ کو دیکھا کہ کیا یہی تھا وہ سخت گیر باپ جو اپنے سخت خول کے اندر ہمیں مغز کی طرح سنبھال رکھتا ہے۔ جب ساری دنیا آپکے خلاف کھڑی ہو جاے تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر زہر کا پیالہ نہیں پلاتا بلکہ خود آگے بڑھ کر آپ کی جنگ لڑتا ہے۔

بہت سالوں سے یہ کچھ الفاظ میرے باپ کے نام کا قرض ہیں جو میں ان کی زندگی میں ان کو لوٹانا چاہتی ہوں اور ان کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپکے جیسا عظیم باپ میں نے آج تک اس دنیا میں نہیں دیکھا۔ آپکے جیسا پہاڑوں سا حوصلہ اور آسمانوں سا ظرف اس دنیا کی چیز نہیں۔ میں ایک ہزار تو کیا لاکھوں لفظ بھی لکھ دوں تو آپکی شفقت محبت اور محنت کا قرض نہیں چکاسکتی جو آپ نے صرف ان دو سالوں میں ہی مجھ پر کر دیا پوری زندگی کے احسانات کا شمار تو ہمارے بس میں ہی نہیں۔ خدا ہر بیٹی کو آپ کے جیسا قابل فخرباپ دے! آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).