مانگ بھروں سندور سے، سجوں ہار سنگھار۔۔۔ گزر گئے وہ بھید زمانے


عید کے دن ہیں تو ہار سنگھار کی بات کیسے نہ ہو۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ،خاطر جمع رکھئے میں سیاسی پلوں کی تعمیر پر کچھ روشنی ڈالنے نہیں جا رہی ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت وقت گزر گیا اور ہار سنگھار کے طریقے بھی بدل گئے۔ جب میرا بچپن تھا تو دادی جان صبح صبح سرمہ دانی لئے وارد ہو جاتیں۔ میں بہت احتجاج کرتی لیکن ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے۔ دادی جان کو خود سپردگی کے بعد صورت حال کچھ یوں ہوتی کہ دادی جان نے مجھے مضبوطی سے دبوچا ہوتا اور سرمچو ،نئی پود کی آسانی کے لئے سرمہ اسٹک جیسے جیسے قریب آتی میرا منہ خودکار طریقے سے خود بخود کھلتا جاتا ،جب تک سرمچو منزل مقصود تک پہنچتا ،جبڑے کی ہڈیاں اپنی آخری حدود تک کھل چکی ہوتیں۔ دادی خوب بھر بھر کے سرمہ لگاتیں اور اور سرمے کی “پوچھ ” یا دم نکا لنا نہ بھولتیں۔ سرمے کی دم نکالنا اس آئی میک اپ کا جزو لاینفک تھا۔ جن کو اس مشق کا بصری ثبوت دیکھنا ہے وہ آنسہ قلو پطرہ کی تصاویر گوگل کر سکتے ہیں۔ جس طرح آن لائن شاپنگ میں آرڈر کی گئی اور ڈیلیور کی گئی چیزوں میں وہی فرق ہوتا ہے جو ڈی پی اور اصل خاتون میں ،بالکل اسی طرح کوشش تو قلو پطرہ سٹائل بنانے کی ہوتی پر اصل صورت حال ایسی ہوتی گویا کالے دھاگے سے دونوں آنکھوں کو کانوں تک باندھ دیا گیا ہے۔
عید پر بچیوں کو اہتمام سے مہندی لگائی جاتی۔ سر شام مہندی کا پاؤڈر گھول لیا جاتا۔ اس محلول میں کافی کا پاؤڈر اور کچھ اور الا بلا بھی شامل کر دیا جاتا کیونکہ شنید تھا کہ اس سے مہندی کا رنگ اچھا آتا ہے۔ اس مہندی کو پورے ہاتھ پر لیپ دیا جاتا ،اگر امی جان کا موڈ خوشگوار ہوتا تو ہتھیلی کے بیچوں بیچ ایک ٹکیہ بھی بنا دی جاتی یا پھر ایک مخصوص تکنیک سے مہندی لگا کر مٹھی کو یوں مضبوطی سے بند کیا جاتا کہ صبح ایک بطخ بنی ہوتی۔ مہندی کا رنگ تیز کرنے کے لئے چینی کا شیرہ بھی لگایا جاتا۔ مہندی کے رنگ کی تیزی سے مستقبل بینی بھی کی جاتی اور ممکنہ ساس صاحبہ کے مزاج کی پیشن گوئی بھی کی جاتی گویا مہندی اس وقت ٹیروٹ کارڈ کے متبادل کے طور استعمال کی جاتی۔ اگر مہندی کا رنگ شوخ ہوتا تو یہ اس بات کی پیش بینی ہوتی کہ آگے چل کر خوش اخلاق اور چاہنے والی ساس سے واسطہ پڑے گا۔ اگر رنگ مدھم ہوتا تو نا قدری ساس ملنے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا۔
رنگ صاف کرنے کے لئے بھی عید سے پہلے کافی ٹوٹکے آزمائے جاتے۔ سب سے مزیدار ٹوٹکا جو میری یاد داشت میں محفوظ ہے وہ یہ کہ کسی اخبار میں پڑھا کہ گملے رنگنے والے گیرو کو رات سونے سے پہلے پانی میں گھول کر چہرے پر لیپ لیا جائے اور صبح سویرے منہ دھو لیا جائے تو چہرہ سرخ و سفید ہو جاتا ہے۔ ما بدولت نے با لکل ایسا ہی کیا لیکن رات کو جب پانی پینے کے لیے کچن میں گئی تو چھوٹے بھائی نے خوف سے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پتا نہیں کیوں ؟
یہاں بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتاتی چلوں کہ ایک بار امی آبائی گاؤں تشریف لے گئیں۔ امی کی عدم موجودگی میں بڑی بہن نے جو عمر میں مجھ سے تین سال اور عقل میں تین سو سال بڑی ہیں ،نے گھر کا نظام سنبھالا۔ ہماری پیاری بہن نے سویا کا ساگ بڑے اہتمام سے پکایا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو یہ کہہ کر کھلایا کہ اسے تناول کرنے سے رنگت سرخ و سفید ہو جاتی ہے۔ بقیہ بہن بھائیوں کا تو مجھے یاد نہیں لیکن میں نے سویا کا کڑوا ساگ ،بہت خوش امیدی سے کھایا اور بعد میں مجھے لگا کہ واقعی میرا رنگ سرخ و سفید ہو گیا ہے ،یہ ہوتا ہے یقین کا سفر.
خیر رنگت سفید کرنے کے ٹوٹکوں پر تو نہ ختم ہونے والی تفصیل لکھی جا سکتی ہے.پتہ نہیں کیوں یہ سیکھنے میں کافی وقت لگ گیا کہ اصل میں دل اجلا ہونا چاہیے اگر یہ میلا ہو تو چمکتی ہوئی سرخ و سفید رنگت بے معنی ہو جاتی ہے۔
بالوں میں ہر ہفتہ وار چھٹی کو سرسوں کا تیل لگانا ضروری ہوتا تھا۔ بلکہ یہ مشق تو میں اتنی با قاعدگی سے کیا کرتی تھی کہ جب میرا نکاح ہوا ،اگلے روز اتوار کا دن تھا اور میں صبح سویرے اپنے بالوں میں خوب تیل چپڑے بیٹھی تھی کہ اچانک بغیر کسی اطلاع کے ایک دن کے منکوحہ شوہر میری نند کے ساتھ وارد ہو گئے۔ گزشتہ روز کی ڈی پی اہلیہ کی جگہ جو یہ سرسوں کے تیل سے آراستہ اہلیہ نظر آئیں تو شاک میں جاتے جاتے بچے۔ اب ہمارا کیا دوش سرپرائز دیا ہے تو بھگتو بھی۔
بس ایسے ہی ہار سنگھار کرتے میرا وقت گزر گیا۔ اب عید پر اپنی بیٹی کو کون سے مہندی لگوائی۔ عید کے روز میری بیٹی نے جدید طریقے سے ہار سنگھار کیا۔ میں نے کہا ابھی بہت چھوٹی ہو تمہیں ہار سنگھار کی ضرورت نہیں۔ تمہاری عمر کی بچیاں تو سادگی میں ہی پیاری لگتی ہیں۔ کہنے لگی مما یہ اولڈ لوگوں کا خیال ہے اب وقت بدل گیا ہے۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ سوچ میں پڑی ہوں کیا واقعی؟
محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ،ہمارا زمانہ چلا گیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).