بس ہوسٹس اور ہمارا معاشرہ


فیصل آباد میں چند روز قبل قتل ہونے والی 18 سالہ مہوش نامی لڑکی اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی بوڑھی ماں اور 6 بہنوں پر مشتمل ایک غریب گھرانے  کی واحد کفیل تھی جو ایک نجی بس کمپنی میں ہوسٹس کی نوکری کرتی تھی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے اُس بیچاری کو بس میں تنگ کیا گیا اور 45 بے حس اور مردہ ضمیر مسافروں کی موجودگی میں اُس کی پٹائی کی گئی اور پھر ٹرمینل پر اُترنے  کی دھمکی دی گئی۔ بلاآخر ٹرمینل پر  پہنچتے ہی اُس بیچاری کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ نہ صرف ایک خاتون کو قتل کیا گیا بلکہ گھر کی کمائی کا واحد ذریعہ بھی ختم کر دیا گیا۔ اس طرز کی نوکری میں تو کفن دفن کے پیسے بھی نہیں بن پاتے۔_
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایک بس ہوسٹس جو مرد حضرات کی شیطانی  اور ہوس بھری نظروں کے چُنگل میں کس قدر مُشکل سے اپنے لئے روزی کماتی ہے؟ ناصرف اپنے لئے  بلکہ اِس کٹھن اور مشکل ترین نوکری کرنے کے بعد وہ  اپنے ساتھ گھر کے مزید کتنے افراد کے پیٹ کی بھوک مٹاتی ہو گی؟ جب زمانے کی ستم ظریفیاں آپ پر حاوی ہوں، بغیر چھت کے گھر ہوں اور اُن  گھروں میں بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، تن ڈھانپنے کے لالے پڑے ہوں، گھر میں بوڑھی ماں اور دیگر بہنیں ہوں، روزی کمانے والا کوئی نہ ہو اور نہ ہی کسی قسم کی آمدن کا ذریعہ تو مجبوراً ایک غریب گھرانے کی سادہ لوح لڑکی کسی بھی قسم کی نوکری نہ ہونے کے باعث اس طرز کی نوکری کا پیشہ اختیار کرتی ہے۔ اکثر نوبت جسم فروشی تک پہنچ جاتی ہے۔_
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بس ہوسٹس کی نوکری  کے لئے  خاتون کو بَن ٹھن کر رہنا پڑتا ہے چاہے پیٹ کے اندر بھوک نے ڈیرے  کیوں نا جمائے ہوں۔ ہمارا سسٹم ایسا ہے کہ بزنس میں خاتون کی نمائش کو پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کیوبن انقلابی رہنما چے گویرا نے ایک مرتبہ کہا تھا جس کا مفہوم مجھے کچھ اس طرح یاد ہے کہ “جب چیزیں ایک نمبر ہوں تو خواتین کو مصنوعی حسن میں رنگ کر اُنہیں بیچنے کی کیا ضرورت، کیا بیچنے والا خواتین کو بیچ رہا ہے یا پھر اپنی ملاوٹ شدہ چیز کو عورت کے حسن میں چُھپا کر”؟ ویسے ہم بھی کاپی پیسٹ میں اتنے ماہر ہیں کہ مغرب کے کلچر کو فوراً کاپی کر کے پیسٹ کر دیتے ہیں۔ ارے بھائی پہلے مغربی معاشرے کے انتہائی مہذب اور اعلٰی اخلاقی معیارات تو کاپی کرو جہاں نصف سے زائد خواتین نوکری پیشہ ہیں جنہیں کسی مرد کی ہوس بھری نگاہوں کا خوف نہیں ہوتا۔ ہاں ایسا ہوتا بھی ہو تو نہ ہونے کے برابر۔ وہ قومیں بھلے جیسی بھی ہوں مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ اُن کے اخلاقی معیارات تک پہنچنے کے لئے مزید  نصف  صدی کا عرصہ درکار ہے۔
کہاں وہ  خلفائے  راشدین کا دور  کہ گھر کے دروازے پر دستک دے کر خبر ہو جائے  کہ عورت گھر میں اکیلی ہے تو دروازے ہی سے واپس لوٹ جاؤ  اور کہاں ہمارا معاشرہ جہاں اپنی ماؤں بہنوں کو پردہ کروا کر دوسرے کی ماؤں بہنوں کا پردہ اتروانا مرد کا شیوہ ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے جب سے ہمارے ہاں سڑکوں کا معیار بہتر ہوا ہے تو مسافروں کی سہولت کے لئے جدید قسم کی بسیں چلائی جاتی ہیں اور ٹرانسپورٹر حضرات دوسروں پر سبقت لے جانے کی غرض سے  کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کے ظاہری  حسن کو استعمال میں لایا جاوے اور مسافروں کو attract کر کے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاوے۔جتنی اچھی بس ہوسٹس اتنے زیادہ ٹھرکی مردوں کا رَش۔۔۔ دوران سفر مسافر مرد حضرات  کی اکثریت کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ بٹن دبا کر خاتون بس ہوسٹس کو بار بار اپنے پاس بلائیں اور اپنی ہوس مٹانے کی کم ترین سطح پر کوئی نہ کوئی کمینگی ضرور  کریں۔ مگر وہ بیچاری ہر گھنٹی پر اُٹھ  کر مسافروں کے پیٹ کی ہوس بجھانے اُن کے پاس پہنچ کر نہایت ادب سے کسی چیز کی حاجت  کے بارے میں پوچھتی ہے۔ اکثر لوگ خواہ مخواہ  بغیر ضرورت صرف تنگ کرنے کی غرض  سے بس ہوسٹس کو گھنٹی بجا کر پاس بلاتے ہیں اور اگر کچھ نہ۔منگوانا مقصود ہوتو صرف  پانی یا کوئی کاربونیٹد ڈرنک منگوا لیتے ہیں۔ مگر وہ بیچاری اپنی نوکری کی خاطر  کبھی بھی اس طرح کی حرکتوں سے مسافروں کے سامنے پریشانی ظاہر نہیں کرتی حالانکہ  وہ مسافروں کی نیت میں فتور ضرور جانتی ہے۔
اکثر لوگ یا تو فون نمبر کی درخواست کرتے ہیں یا پھر کسی کاغذ پر اپنا فون نمبر لکھ کر اُس کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ دورانِ طالب علمی جہاں تک  مجھے یاد ہے تو 2010 تک خواتین بس ہوسٹس صرف پنجاب کی حد تک کام کرتی تھیں۔ اُس وقت بہترین سہولت مہیا کرنے والی صرف Sammi Daewoo جو 2012 میں Daewoo Express بن گئی تھی ہی وہ واحد سروس تھی جو پنجاب سے کراچی تک جاتی تھی اور پنجاب کے آخری اسٹیشن یعنی صادق آباد میں خواتین بس ہوسٹس کو اتار کر سندھ میں صرف مرد حصرات بسوں میں ہوسٹ کے فرائض انجام دیتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ خواتین کو پورے پاکستان کی بسوں میں ہوسٹس کے فرائض سونپ دیئے گئے۔ 2012 میں Daewoo کے مقابلے میں دیگر لگژری بس سروسز بھی سڑکوں پر دوڑنا شروع ہوئیں جو کراچی سے راولپنڈی تک Daewoo کی دیکھا دیکھی خواتین کو بسوں میں ہوسٹس  کی نوکری پر لے آئیں۔ بسوں میں خواتین ہوسٹس کے ساتھ پیش آنے والے کئی واقعات کا میں عینی شاہد ہوں جو میڈیا تک شائد ہی رپورٹ ہوئے  ہوں۔
خیر کہا جاتا ہے کہ نقل ضرور  کیجئے مگر عقل کے ساتھ۔ جب تک ہم مغربی معاشرے کے اخلاقی معیارات تک نہ پہنچ جائیں تب تک ہماری بسوں میں اُنہی پُرانے وڑائچ طیارے والے کنڈکٹروں سے ہوسٹ کی خدمات لی جائیں جو مسافروں کے پانی مانگنے پر صرف یہی جواب دیتے ہیں کہ “او پائی ذرا  صبر کر، اگلے اسٹیشن پر پٹرول ڈلوائیں گے تو پانی بھی پی لینا۔” خیال کیجئے! وقت ایک سا نہیں رہتا۔ شاہ کو گدا بننے کی لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آ سکتی ہے۔
خیال کیجئے کہ کَل کلاں ہماری ماں، بہن اور بیٹی  کو بھی اس طرز کی نوکری اختیار کرنی پڑ سکتی۔ خیال  کیجئے کل کلاں ہماری بہن بیٹی پر بھی شیطانی ہوس لئے کوئی مرد مہوش جیسی ایک اور مثال قائم کر سکتا ہے۔ خیال کیجئے! اور ہر شعبہ زندگی سے منسلک خواتین  کو اپنی ماں، بہن اور بیٹی سمجھ کر احترام دیجئے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).