فٹبال ورلڈ کپ کی حیران کن کہانیاں: دھت ریفری اور ’مردے کا گول‘


برازیل سفید کِٹ میں۔

1950 کے ورلڈ کپ کے بعد برازیل کبھی سفید کِٹ میں نہیں کھیلا۔

ہر چار سال بعد کروڑوں لوگ اپنی پسندیدہ ٹیموں کو ورلڈ کپ میں ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک ٹرافی کے پیچھے چند ملکوں کا مقابلہ نہیں، بلکہ ایک بڑے پیمانے پر انسانی طاقت کا مظاہرہ ہے۔

اور جہاں انسان ہوں گے، وہاں کچھ مزاحیہ واقعے بھی رونما ہوں گے۔

ورلڈ کپ کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے، کبھی کیمرے کے سامنے تو کبھی پسِ پردہ۔

ان کہانیوں کو ڈھونڈنے کے لیے بی بی سی نے صحافی لوچیانو ورنیکی سے بات کی، جو 1993 سے فٹبال سے منسلک ناقابلِ یقین واقعات اکٹھے کرتے آرہے ہیں۔

ان میں چند دلچسپ واقعات مندرجہ ذیل ہیں۔

جب ایک ’مردے‘ نے دو گول کیے

1954 کے ورلڈ کپ میں یوروگوئے کی ٹیم

1954 کے ورلڈ کپ پر یوروگوئے کی ٹیم چھائی ہوئی تھی۔

یہ واقعہ 1954 میں پیش آیا، اور اس کے مرکزی کردار یوروگوئے کے فارورڈ وان ہوہبرگ تھے۔

اپنے پہلے ہی میچ میں انھوں نے دو گول کر ڈالے، اور دوسرے گول کی بدولت یوروگوئے نے ہارا ہوا میچ بچا لیا۔ میچ کے 86ویں منٹ میں ہونے والا یہ گول خاصہ ڈرامائی تھا۔

خوشی کے مارے پوری ٹیم وان ہوہبرگ پر چڑھ دوڑی، اور اس جوش کا حیران کن نتیجہ یہ نکلا کہ تھکن اور آکسیجن کے کمی کی وجہ سے وان ہوہبرگ بے ہوش ہو گئے۔

ٹیم کے فیزیو کارلوس عباتے نے انھیں جلدی سے کورامائن نامی دوا دے دی، جو سانس لینے میں دشواری دور کرتی ہے اور وہ ہوش میں آ گئے۔

صحافی لوچیانو ورنیکی بتاتے ہیں کہ ذرائع کے مطابق وان ہوہبرگ کو میچ کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا، اور چند لمحوں کے لیے ان کی طبی موت واقع ہو چکی تھی۔

لیکن ہوہبرگ فوراً ہی ہوش میں آگئے اور انھوں نے باقی پورا میچ بھی کھیلا۔

جنگجو قبیلے کا جوش

1930 کی یوروگوئے کی ٹیم

کہا جاتا ہے یوروگوئے کی ٹیم چاروا قبیلے کے جوش سے اپنی طاقت لیتی تھی۔

اس کہانی کو جاننے کے لیے ہمیں کئی سال پیچھے جانا ہوگا اور چاروا نامی قبیلے کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

لاطینی امریکی خود میں ہمت نہ ہارنے کے جوش و جذبے کو ’چاروا کا پنجا‘ کہتے ہیں۔ چاروا اس جنگجو قبیلے کے نام تھا جو ہسپانوی اور پرتگالی راج سے پہلے یوروگوئے کی سرزمین پر آباد تھے۔

یہی وہ تاریخی جذبہ ہے جس کی بدولت یوروگوئے کی ٹیم اپنے سے زیادہ قابل حریفوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔

اس جذبے کی دو مثالیں نمایاں ہیں۔

ان میں سے سب سے یادگار واقعہ 16 جولائی 1950 میں پیش آیا، جب یوروگوئے نے برازیل کو ریو ڈی جنیریو کے میدان میں شکست دی۔

یوروگوئے کی ٹیم اس میچ میں انڈرڈاگ تصور کی جارہی تھی لیکن انھوں نے اس سال ٹرافی اپنے نام کر کے برازیل کو شرمندہ کردیا۔

اس قِصے کو آج بھی ’ماراکنازو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس جنگجو جذبے کی دوسری مثال 1962 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی، جب یوروگوئے کا میچ سوویت یونین سے ہوا۔

ایک جارحانہ ٹیکل کے بعد یوروگوئے کے مڈ فیلڈر الیسیو الواریز کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

لیکن چوٹ لگنے کے باوجود الواریز میدان چھوڑنے کو تیار نہ تھے اور کھیلتے رہے، جس سے ان کی ٹانگ شدید متاثر ہوئی۔

وہ رنگ جسے یاداشت سے مٹا دیا گیا

1950 میں پیش آنے والا 'ماراکنازو' واقعہ

برازیلی شائقین ابھی تک 1950 میں پیش آنے والا ‘ماراکنازو’ واقعے کو نہیں بھلا سکے۔

آپ نے شاید برازیل کو کبھی سفید کِٹ میں نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کی وجہ برازیل کی سب سے شرمناک شکست ہے۔

’ماراکنازو‘ کا مشہور واقعہ یاد ہے نا؟ اسی ورلڈ کپ میں میزبان ٹیم برازیل کی کٹ کا رنگ سفید تھا۔

ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے یہی لگتا تھا کہ میزبان ٹیم ہی ورلڈ کپ جیتے گی، لیکن یوروگوئے نے سب کو حیران کر کے دوسری بار ورلڈ کپ اپنے نام کر لیا۔

تب سے لے کر آج تک برازیل کی ٹیم نے کبھی سفید رنگ کے کٹ نہیں پہنی۔ اس کے بجائے کھلاڑی اب پیلے یا نیلے رنگ کی جرسیاں پہنتے ہیں۔

لیکن محض رنگ ہی نہیں، شکست کھانے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی بدشگون سمجھا جاتا تھا اور انھیں دنیاِ فٹبال سے دور رکھا گیا۔

یہاں تک کہ اس واقعے کے 43 سال بعد بھی اس ٹیم کے گول کیپر باربوسا کو 1993 کے ورلڈ کپ سکواڈ سے ملنے تک کی اجازت نہ تھی۔

حال ہی میں برازیل کو ایک اور شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جب 2014 کے ورلڈ کپ میں میزبان ٹیم کو جرمنی نے ایک کے مقابلے میں سات گول سے ہرا دیا۔ اس شکست کی ذمہ داری بھی ’ماراکنازو‘ والی متنازع سکواڈ پر ڈال دی گئی۔

نشے میں دھت ریفری

جرمن ریفری والٹر ایشوائلر

والٹر ایشوائلر 1982 کے ورلڈ کپ میں ریفری کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے۔

جب بھی فٹبال کی بات ہو تو شراب کا ذکر ضرور آتا ہے، کیونکہ اکثر شائقین میچ کے دوران شراب نوش کرنا پسند کرتے ہیں۔

لیکن کبھی کبھی شراب کا اثر کھیل کے میدان میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

صحافی لوچیانو ورنیکی کو جرمن ریفری والٹر ایشوائلر کی حرکتیں ابھی تک یاد ہیں۔ ’ایسے لگ رہا تھا کہ انھیں کھیل کے قوائد و ضوابط معلوم ہی نہیں‘۔

اصل کہانی تب سامنے آئی جب ایک صحافی نے ایشوائلر کے ہوٹل میں کام کرنے والی ایک ملازمہ سے بات کی۔

’مجھے انھیں لڑکھڑاتا دیکھ کر بالکل حیرانی نہیں ہوئی تھی، کیونکہ چند گھنٹوں پہلے ہی انھوں نے کھانے کے ساتھ تین لیٹر شراب پی تھی‘۔

لیکن یہ تب کی بات ہے، آج ایسا کرنے کی بالکل اجازت نہیں، بلکہ میچ سے پہلے شراب پینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp