لوری اور نیند کی پری


بچوں کے سونے کا وقت ہے۔ “چلو چلو، اٹھو، اٹھو، جاؤ جاؤ“۔ روز ہوتا ہے۔ ذرا سا لیٹ سوئے تو صبح باں باں کرئیں گے، اٹھا نہیں جائے گا، بریک فاسٹ پر الگ بحث ہو گی۔ فاطمہ اور آمنہ تو کچھ بڑی ہو گئی ہیں، خود سے تیار ہو جاتی ہیں دو منٹ میں، مگر محمد۔ ٹراوزر پہنتے پہنتے سوچ میں گم جاتا ہے۔ ابھی سات سال کا ہے تو ناشتہ بھی آہستہ آہستہ کرتا ہے اسے کہو ”جلدی! جلدی!“ تو کھڑا ہو کر رونے لگ جاتا ہے مزید دیر کروا دیتا ہے۔ تین بچے پال کر اندازہ ہوا کہ اتنا چھوٹا بچہ وقت اور اس کی قلت کا اندازہ نہیں لگا پاتا۔ الٹا ماں کا جلدی جلدی کا شور ان کے ہاتھ پاؤں پُھلا دیتا ہے۔ مگر یہ تو تھی صبح کی کہانی۔ اس سے پہلے ہو گی رات کی داستاں!

تو اب تین بچوں کو رات ساڑھے سات بجے سلانے کا مطلب ہے کہ کوئی ساڑھے چھ بجے ان کے پیچھے سب ہتھیار لئے لگ جاؤ۔ سر پر کھڑے ہو جاؤ،
”محمد! چلو پی پی کرو!“
”نائٹ ڈریس چینج!“

اب ایسے موقع پر محمد کو ہمیشہ یاد آ جاتا ہے کھیلنا۔
”جسٹ فائیو منٹس“۔
”آئی وانٹ ٹو پلے“۔

اور پھر
اب یہاں پر مجھے پتا ہے جیسے بھی چیخ پکار کر لوں، اس کا باجا بڑھتا ہی جائے گا، تو آسان حل کیا ہے۔ دو تین گہری سانسیں، ذرا سا حوصلہ۔
”اچھا! اوکے!“
”اونلی فائیو منٹس۔ اوکے؟ “
”اوکے“۔

اب وہ راضی ہو گیا۔ اور میں تھوڑی سی بارگین سے کامیاب۔ پانچ منٹ بعد جاؤں گی تو تھوڑی سی چوں چراں کر کے مان جائے گا اور اپنی رضامندی سے لیٹ جائے گا۔ بچہ اپنی رضامندی سے بستر پر جائے گا تو جلد سکول کی تھکاوٹ میں سو جائے گا۔ ورنہ پھر چوں چوں چوں۔ بچے کی بھی زحمت اور ماں کے لیے تو مصیبت سی مصیبت!ایک چوبیس گھنٹے کی دن رات ڈیوٹی دینے والی ماں کی اس سے بڑھ کر پریشانی اور کوئی نہیں کہ دن رات لگا کر، پھرکی کی طرح گھوم کر بھی بچہ پھر بھی چوں چوں چوں کرتا پھرے!

آمنہ اور فاطمہ دونوں کو نماز کی عادت ڈال رہی ہوں ان کو آٹھ تک جگانا مجبوری ہے۔ محمد چھوٹا ہے اور اسے اکیلے لیٹنے پر راضی کرنا مشکل ہے۔ تو اگر کبھی میاں ذرا حالت سکون میں ہوں، اور میرے کام قسمت سے وقت سے کچھ پہلے مکمل ہوں اور دماغ میں کچھ شعور باقی ہو، تو میں اس کا ہاتھ پکڑتی ہوں اور کہتی ہوں، آو سوئیں! تھوڑی دیر اس کے ساتھ لیٹ کر، اسے پپی جپھی کر کے، تھوڑی دیر اس کے ساتھ لاڈیاں کر کے وہ پرسکون ہو جاتا ہے اور آرام سے سو جاتا ہے۔

محمد کو میں نے لوریاں سنانے کی عادت کبھی نہیں ڈالی، اس لئے وہ کبھی لوری نہیں سنتا، نہ سننے کی ضد کرتا ہے نہ کہانیاں سننے کی۔ وہ صرف مجھ سے جھپھیاں پپیاں کر کے خوش ہو جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ بیٹا ہے اس کے مزاج کا فرق ہے، یا شاید اس لئے کہ اسے عادت نہیں ڈالی۔ محمد کی باری وقت ہی کہاں تھا میرے پاس اتنے لاڈ کرنے کا۔ ایک بچہ سکول جاتا تھا، دوسرا گھر میں تیسرا گود میں۔ ایک کے لئے صبح سویرے اٹھنا پڑتا، فاطمہ کو سکول بھیج کر فارغ ہوتی تو آمنہ کے اٹھنے کا ٹائم ہو جاتا، اسے واش کر کے کھلا پلا کر فارغ ہوتی تو محمد اٹھ جاتا، اس کی ڈیوٹی پوری کرتے کرتے کھانا پکانا، گھر کچن کے سب کام سر پر سوار ہو جاتے۔ پھر باری باری ڈیوٹیاں پوری کرتے میں دن رات کے ذیادہ تر گھنٹے جاگتے گزارتی۔ کوی بھی دو کام ایک ساتھ نہ ہوتے سب کے اپنے اوقات، سب کی اپنی اپنی روٹین اور کرنے والی ایک تنہا میں۔ سو اس کے سونے کے وقت پر اسے کاٹ میں لٹاتی، ٹی وی پر سکرین آف کر کے تلاوت چلاتی اور خود باہر، وہ کروٹ بدلتا بدلتا خود ہی سو جاتا، میرا بھولا معصوم بچہ۔

مگر یہ چیز جتنی اس کے لئے کم رومانوی تھی اتنی ہی مفید بھی تھی۔ پہلے تو میری روٹین میرے اتنے لاڈ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، میں چاہتی بھی تو نہ کر پاتی! پھر اس سے اس نے خودمختاری سے سونا سیکھا۔ بیٹا ہے، مضبوط بنے گا! میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ زمانے کی دھول چاٹنے والے ہیرے موتی بن کر نکلے زندگی میں۔ جن کے سروں پر چھت تک نہ تھی انہوں نے کامیابی سے دنیا پر راج کیا۔ تو اگر ماں کی میٹھی گود کے ہوتے اس نے کچھ مشکل کی عادت ڈالی تو انشا اللہ، اس کے حق میں خدا اسے اچھا ہی کرے گا۔ میرا دل بہت ٹوٹتا ہے، مگر میں خدا سے اچھے کی امید رکھتی ہوں۔ مجھے یقین ہے میرے مسائل کو اس سے بڑھکر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ میرے اختیار میں میری استطاعت میں جو کچھ تھا میں کر چکی۔ اب میں اپنی مجبوریوں اور تنگی دامن پر یا پچھتاوے پال سکتی ہوں، رو دھو سکتی ہوں، یا اپنی مشکلات کو سمجھ کر اپنا پورا زور لگا دینے پر خود کو ایک تھپکی دے کر سب کچھ اللہ پر چھوڑ سکتی ہوں کہ کوشش ہمارا فرض تھا رحمت اور برکت ڈالنے والی ذات خدا کی، تو میں اکثر کوشش کرتی ہوں کہ میں پچھتاوے پالنے کی بجائے باقی سب خدا پر چھوڑ دوں۔

فاطمہ کی بار جو میں لوریاں دیتی تھی تو سارا جہان سنتا تھا۔ اسے جو عادت ڈالی لوری سننے کی اور وہ نیند سے اکتائی ہوی بچی، میں اسے سلانے کی کوشش میں نڈھال ہو جاتی، اور وہ میری کمر سیدھی کرتے کرتے پھر اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ جو دنیا جہان کے گانے، نعتیں، درود، گھر، باہر، مہمان جا کر، شادی میں کہیں پر بھی جہاں اسے چپ کروانے کی بات ہوتی مجھے لوریاں سنانی پڑتیں۔ لوریوں کا یہ بھتہ کوئی پانچ سال تک بھرا پہلے فاطمہ کو اور پھر کچھ نہ کچھ آمنہ کو بھی اور اس کے بعد میرا گلا دکھ گیا، آواز بجنے لگی، گانے نعتیں سب تھک گئیں اور میں نے بچوں سے توبہ کرنے سے پہلے ہی لوریوں سے توبہ کر لی!

لیکن یہ سچ ہے کہ بستر پر جاتے ہوے بچے کو کچھ ذہنی سکون اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی خواہش میں وہ پھدکتا، بھاگتا پھرتا ہے۔ اور وہ توجہ ضروری نہیں صرف لوری ہی ہو، کچھ پپیاں، کچھ جپھیاں کچھ دیر کا اس کے ساتھ لیٹ جانا بھی اس کے دل اور دماغ کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

تو محمد کی بار میں نے دوسرا طریقہ اپنایا۔ سونے کے لئے اس کے ساتھ لیٹ جاتی، اور اکثر اس سے پہلے ہی سو بھی جاتی۔ ماں جاگتی گھڑیاں گنتی رہے، اس کا دل تیز تیز دھڑکتا رہے اور پلکوں پر ذمے داریاں اور تابعداریاں مچلتی رہیں تو بچہ بھی ڈھنگ سے سو نہیں پاتا۔ اپنے جگر گوشے کو سکون سے میٹھی نیند سلانا ہے تو پہلے اپنے کندھے سے ہر ذمہ داری کا بوجھ، ساس کے کڑے تیور، میاں کے مطالبے جھٹک دیں۔ آپ کی سست پڑتی دھڑکن اور نرم پڑتا سوتا ہوا جسم بچے کو جلد از جلد نیند کی طرف لیجاتا ہے۔ اور لگے ہاتھوں کچھ گھڑی کا بونس آرام بھی مل جاتا ہے۔ اس بونس آرام میں چاہے پندرہ منٹ کا ہی سہی، نہ کوئی شرمندگی ہے نہ جرم نہ گستاخی۔ یہ ماں اور بچے دونوں کی اچھی صحت اور تعلقات کے لئے بہت ضروری ہے۔

زندگی میں ہلکا پھلکا رومانس ضرور رکھیں، کبھی دل چاہے تو لوریاں، نظمیں، گانے، نعتیں جو آپ کو پسند ہو ضرور سنائیں، مگر اسے اپنی اور بچے کی عادت اور مجبوری نہ بنائیں۔ ماؤں کی لوریاں جب تھکاوٹ سے چُور ہو جائیں اور ان میں سُر کی بجائے غضب جھانکنے لگے تو ایسی لوریاں بھی مفید ہونے کی بجائے کچھ نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کو آزادی اور خودمختار ی سے سونے کی عادت ڈالنا ان کو بھی غیر ضروری دباؤ سے بچاتا ہے اور ماؤں کو بھی۔ ہاں زندگی کے چھوٹے موٹے رومانس رہ جاتے ہیں، ماؤں کا دل دکھتا رہتا ہے مگر۔ ۔ ۔ ماں کا دل غضب ناک اور مجبور لوری سنا کر بھی کب سکون سے رہتا ہے تو یہ بہتر نہیں کہ دو میں سے ایک زیادہ بہتر چوائس کر لی جائے۔

مجھے یقین ہے کہ بچے صرف لوریوں ہی سے نہیں پل جاتے، انہیں صرف ماں کی ہر وقت کی گود ہی نہیں چاہیے، بلکہ ماں کی زیادہ گود تو بگاڑتی دیکھی ہے۔ بچے کو کچھ اس دنیا کی ہوا بھی چاہیے جس میں اس نے عمر بھر رہنا ہے۔ ماں کی نرم گرم گود بہت ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ماؤں کی سخت روٹین کی وجہ سے کچھ کمپرومائز کرنے پڑ جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ میں نے بڑے بڑے لوگوں کی تربیت کو بگڑتے دیکھا ہے۔ نیک اولاد کے لئے صرف باشعور والدین ہی نہیں خدا کی رحمت کا ہاتھ اور برکت بھی بہت ضروری ہے۔ ہم ماؤں کو عادت ہو جاتی ہے ناں اپنی ہر کوتاہی کو دل پر لینے کی، دنیا کی ہر ماں سپرماں ہوتی ہے پھر بھی مزید سپر ہونا چاہتی ہے، پھر بھی خود کو ہر وقت ناکام سمجھتی رہتی ہے۔

کبھی کبھی ہمیں بھی لوریوں کو ضرورت ہوتی ہے، خود کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمارے اختیار میں جو تھا ہم کر چکے، اس سے زیادہ کی ہماری استطاعت نہ تھی۔ کبھی ہمیں بھی خود کو ہی گلے لگا کر تسلی دینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمارے ذمے جو کام تھا ہم خوب دل لگا کر کر چکے، اب قبول کرنے والی ذات اسے قبول کرے اور اس میں برکت ڈالے!آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).