امیر ترین کی سیاست ؟


الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018 کیلئے تمام پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باھر فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل بھی فوج کی زیرنگرانی ہوگی ۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کا انتظار کیجارہاتھاکہ انتخابات میں فوج کو کونسی ذمہ داری دی جارہی ہے جوکہ 25 جولائی کو ہونیوالے انتخابات کو صاف شفاف بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔اب ایک بات کی تسلی تو ہوگئی ہے کہ فوج باھر ہی نہین بلکہ اندر بھی موجود ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ سے بھی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جوکہ اس اہم اور مشکل گھڑی میں ان قوتوں کا راستہ روک سکتاہے جوکہ انتخابات کے روز عوام کو دھونس اور دھاندلی کے زورپر اپنے ووٹ کے حق سے محروم کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف انتخابات میں فوج کو دی گئی ذمہ داری کے باوجود ہمارے خیال میں فوج کو انتخابات میں اور کردار دینے کی ضرورت ہے وگرنہ انتخابات متناز ع ہونے کا خدشہ موجود رہے گا۔

انتخابات میں پرایذئیڈنگ آفیسر کا کردار انتہائی اہم ہوتاہے جوکہ شعبہ تعلیم سے ہوتاہے مطلب اساتذہ صاحبان ہوتے ہیں لیکن قابل مذمت صورتحال یوں ہوتی ہے کہ ان کو عام زندگی میں بحیثت استاد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی وطاقتور طبقہ اس وقت تک ان کو تبادلوں اور جھوٹی درخواستوں کی صورت میں فٹ بال بنا کر رکھتے ہیں جب تک وہ ان کے اس طرح تابعداری نہ کریں جس طرح ان کے گھر کے ملازم کرتے ہیں ۔اسی طرح دیگر ملازمین جوکہ ضلعی سطح پر ملازمت کرتے ہیں ان کو بھی اسی طرح کے خطرات لاحق ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے خاص گروپ دھڑے کی الیکشن میں حمایت نہ کی تو پھر اس کا جینا حرام ہوجاتاہے اور دلچسپ صورتحال یوں ہوتی ہے کہ اسوقت الیکشن کمیشن بھی ان کی مدد کرنے نہیں آتا ہے۔

اسی طرح کچھ منفی کردار جو کہ پپو پٹواری ،ا بخش رونگھ اور مفتی نعیم جیسے ہوتے ہیں۔ جن کا ایسے موقعوں پر مطلب انتخابات میں مخصوص گروہ کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ مستقبل کی حکومت میں پرکشش نعیناتی حاصل کی جا سکے۔ یوں ان کیلئے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرنے کیلئے منفی کردار اداکرنا روٹین کی بات ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ہوجائے کہ اس طرح کے منفی کردار صرف کوٹ سلطان یاراولپنڈی میں نہیں ہوتے ہیں بلکہ پاکستان بھر میں موجود ہیں ۔ ادھر پولیس کی سیاسی وابستگوں کی داستان بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں پولیس گردی کے عمل کو روکنے کیلئے فوج کو طلب کیاجاتا ہے۔ وگرنہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ فوج پیچھے رہتی اور پولیس امن وامان کی ذمہ داری کو پورا کرتی ہے ۔ہمارے خیال میں اس صورتحال میں انتخابات صاف شفاف اور عوام کی توقعات کے مطابق اسی صورت میں ہوسکتے ہیں کہ فوج کے رول کو پرائیڈنگ آفیسر تک بڑھایاجائے ۔اگر اس پراسس میں وہی پرانے اساتذہ کو استعمال کرکے انتخابات کروائے جاتے ہیں تو پھر اس بات کا امکان ماضی کی طرح موجود رہے گا کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن جب فوج سے الیکشن کیلئے خدمات حاصل کررہاہے تو مکمل حاصل کرے اور انتخابات میں ان سارے عناصر کا کردار کم کرے جوکہ الیکشن کے دن طاقتور طبقہ کیخلاف مقامی ہونے کی وجہ سے فیصلہ کن حکم جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے اور وہ اس بات کا فائدہ اٹھاکر انتخابات چرالیتے ہیں۔اور عوام بچاری کیساتھ ایک بارپھر واردات ہوجاتی ہے۔
عام انتخابات 2018میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر بڑی آواز یں سننے کو مل رہی ہیں جوکہ سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے کردار کو داغدار کررہی ہیں ۔تحریک انصاف کے اپنے ہی لوگ واویلاکررہے ہیں کہ جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی اپنے من پسند افراد کے علاوہ ان کو ٹکٹیں دے رہے ہیں جوکہ پیسہ میں تو اہلیت رکھتے ہیں اور ان کی توقعات پوری کرسکتے ہیں لیکن سیاسی میدان میں چھوٹے کردار ہیں۔

تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران راقم الحروف کیلئے یہ بات خاصی توجہ طلب تھی کہ بہاول پور میں نواب صلاح الدین عباسی کے بیٹے بہاول خان کو پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں دیاگیاہے ۔ جو لوگ بہاول پور کی مقامی سیاست کو جانتے ہیں وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ نواب صلاح الدین عباسی صاحب بہاول پور کی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں اور اس بات کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے نواب صلاح الدین عباسی اپنی سیٹ پر ہی نہیں بلکہ پورے بہاولپور کے تینوں اضلاع کی قومی وصوبائی اسمبلیوں کی سیٹیوں پر اپنی عوام سے محبت کی بدولت اثرانداز ہوتے ہیں۔اور جس امیدوار کی حمایت میں نکلتے ہیں ،وہ کامیابی سے ہمکنار ہی ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں عمران خان کو امیر ترین اور اسحاق خاکوانی کی طرف سے حقیقی تصویر نہیں بتائی جارہی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کیلئے الیکشن کا نتیجہ توقعات کے برعکس ہو سکتا ہے۔

ادھر لیہ میں تحریک انصاف کے دیرنیہ ساتھی ہاشم سہو کو ٹکٹ دینے کی بجائے حیدر تھند کو اچانک ہی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ کی تسلی کروا دی گئی ہے اور حیدر تھند کو ٹکٹ دینے کے پیچھے بڑی کارروائی کا عمل دخل بتایاجارہاہے،مطلب سب گول ہے۔ کارکن ہاشم سہو کو تحریک انصاف کیساتھ کھڑا ہونے کا صلہ یہ دیا گیا ہے کہ اس کی اب بات ہی نہیں سنی جارہی ہے۔ لیہ سے ہمارے دوست ستار خان نیازی کا فون آیا کہ ہاشم سہو کیساتھ تحریک انصاف میں زیادتی ہورہی ہے تو میرا کہنا تھا کہ نیازی صاحب مناسب ہوگا کہ آپ ہاشم سہو صاحب کے دکھوں کا مدوا بذریعہ میانوالی عمران خان سے کروائیں۔ ادھر تحریک انصاف کی طرف سے فاروق اعظم ملک جیسے سیاستدان کیساتھ ہاتھ کیاجارہاہے۔ فاروق اعظم ملک منتخب میئر بہاول پور رہے،1988 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیرمملکت ریلویز بنے۔ 2002 میں رکن قومی اسمبلی بنے ،اسی طرح 2008 کے الیکشن میں رنر اپ رہے اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ الحاق میں تھی اور 70ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے ،اسی طرح بہاول پور کی مقامی سیاست میں نواب صلاح الدین عباسی کے بااعتماد ساتھی کی حیثیت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں ۔2014میں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، نتیجہ یہ ہے کہ متحرک ہونے کے باوجود 2018کے انتخابات میں ان کے ٹکٹ کو ہولڈ کر لیا گیا ہے۔

دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ سب گول ہے کے معاملہ اور پارٹی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا معاملہ تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز میں بھی اپنے عروج پر ہے ۔ پیپلزپارٹی نے لیہ میں ڈاکٹر جاوید کنجال کے ساتھ یوں ہاتھ کر لیا ہے کہ پارٹی کیساتھ ایک طویل رفاقت کے باوجود ٹکٹ دینے کی بجائے جھنڈی کروا دی ہے۔ ڈاکٹرکنجال صاحب کو شاید اب اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پارٹی کے ملتانی قائدین کو وفاداری کے علاوہ بھی اوپر کے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں ڈاکٹر صاحب جیسے پارٹی ورکر پیسوں پر وار دئیے گئے ہیں ۔ادھر بہاولپور کے لیگی رکن اکمل بھٹی نے اپنی خدمات جو کہ پارٹی کیلئے گزشہ تیس سال سے دی ہیں وہ وٹس ابپ کی ہیں کہ ان کے ساتھ پارٹی انصاف کرنے کی بجائے ایسے موقع پرستوں کو ٹکٹ دے رہی ہے جوکہ پارٹی ورکر کی بجائے مال دار ہیں ۔اکمل بھٹی نے اپنی خدمات گنوانے میں لمبا وقت لیا تو میں نے عرض کی حضور کیا آپ نے اپنی پارٹی قیادت کو یہ سب کچھ آئینہ کے طورپر دکھایاتو ان کا کہناتھاکہ جی بتایا ہے لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے ۔یہاں اس بات کا تذکرہ کرتاچلوں کہ ٹکٹوں کی تقیسم میں اس طرح کی کہانیوں کا معاملہ نواب صلاح الدین عباسی،ہاشم سہو ،فاروق اعظم ملک ، ڈاکٹر جاوید کنجال اور اکمل بھٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد میں کارکنوں اور حقیقی لیڈرشپ کو نظرانداز کرکے “امیرترین “سیاسی نظام کومضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).