میڈا پیو – ایک شفیق سندھی باپ


ہر چھوٹی سی گڑیا کا آئیڈیل اپنا باپ ہی ہوتاہے جو اس کے خیال کے مطابق دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہوتا ہے اور سب کچھ کرسکتا ہے۔ بچپن میں جب بابا سارے کام کاج نمٹا کے گھر کو پہنچتے تو ہم چھوٹی بہنیں ایک دوسرے کو دھکے دیتی بابا کی جانب بھاگتیں اور ان سے چمٹ جاتی تھیں۔

ہماری اس ادا کو وہ ہر گز پسند نہیں کرتے کیونکہ مٹی میں کھیلنے سے نہ صرف ہمارے ہاتھ بلکہ ہمارے کپڑے تک گندے ہوچکے ہوتے تھے، جو ان کے سفید بے داغ کپڑوں کو گندا کردیتے تھے۔ وہ ہمیشہ سفید رنگ کا لباس پہنتے تھے جو ان کا پسندیدہ رنگ تھا۔

بابا فارغ ہوکے لیٹ جاتے اور ریڈیو پر بی بی سی لندن سے خبریں سنتے میں یہی موقع مناسب سمجھ کے ان کے ساتھ جاکے سوتی اپنا سر ان کے سرسے ٹکا کر غور سے خبریں سنتی اور اپنی چھوٹی سی بانہہ ان کے سینے پر پھیلا دیتی۔ بی بی سی پر خبروں سے پہلے اور آخر میں ایک مخصوص موسیقی بجائی جاتی تھی جو اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اسی طرح ویت نام کمبوڈیا اقوام متحدہ اور فلسطین جیسے الفاظ سن رکھے تھے۔

میری جوؤں کا خاتمہ اماں ہرہفتے ہی کیا کرتیں تھیں پر وہ ہونے میں ہی نہ آتا تھا اس لئے اماں ڈانٹ دیتی کہ اپنے سر کو تھوڑا دور رکھو کہ بابا کے بالوں میں یہ ہجرت کرجاتی تھیں۔
یہ تقریباً روز کا ہی معمول تھا ہمارے بابا اپنے دو بڑے بھائیوں کے ساتھ دادا کی ہرے رنگ کی جیپ میں کہیں نکل جاتے تھے یہ جیپ پی پی پی کے لیڈر میر منور ٹالپور کے دادا میر اللہ داد نے دادا کو دلوائی تھی دونوں میں گاڑی چھنتی تھی پکے دوست تھے اور ان کے بیٹے بابا کے بیسٹ فرینڈ تھے۔ میراللہ داد کی توصل سے ہی دادا نے بندوق بھی لے لی تھی جو جرمنی کی بنی ہوئی تھی۔

یہ بندوق ہمیشہ گھر کے ایک کونے میں کھڑی ہوئی رکھی رہتی تھی جب ہمارے گھر میں ڈکیتی ہوئی جو بہت بعد کی بات ہے تو ڈاکو وہ بندوق بھی ساتھ لے گئے تھے انہوں نے اس سے کچھ کام لیا ہو تو اور بات ہے ورنہ تو وہ ہمارے گھر میں بیکار ہی رہی ساتھ میں گھر میں رکھا ہوا چالیس تولہ سونا لے کے چلتے بنے تھے۔

ہماری آپائیں بتاتی تھیں کہ گاؤں کے قریب رام جاگو جیسے صدیوں پرانے قبرستان کے قریب میلہ لگتا تو بابا میر صاحبان کے کھانے کا بندوبست کرتے تھے جب یہ لوگ بھی میلہ گھومنے جاتیں تو بچیوں کو میر صاحبان بیس 20 روپے تک خرچی دیتے جو اس زمانے کے حساب سے بہت بڑی خرچی تھی۔

بابا ہنس کے بتاتے تھے کہ وہ ہمیشہ ہی اسکالر شپ پر پڑھتے رہے ہیں اس طرح انہوں نے اپنے باپ کا خرچہ بچالیا تھا۔ میں نے ان کو کبھی قہقہہ لگاکے ہنستے نہیں دیکھا تھا ان کی ہنسی سے مراد ان کی گھری مسکراہٹ ہے۔ پہلے وقت کا فائنل پاس کیا تھا وہ آگے پڑھنا چاہتے تھے۔ ان کا پسندیدہ کھیل فٹ بال تھا جو اسکول میں کھیلا کرتے تھے۔

فائنل پاس کا دادا کو پتا چلا تو وہ بابا کو زبردستی گاؤں لے گئے کہ ابھی اور کتنا پڑھوگے اور زمینیں کون سنبھالے گا چلو تو تمہاری شادی کرواؤں۔ بابا کبھی نافرمانی نہیں کرتے تھے وہ گاؤں آگئے پر شادی کے لئے یہ شرط رکھی کہ گاؤں کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی سے شادی کروائیں۔ اس طرح بابا کی شادی اماں کے ساتھ ہوگئی جو لمبی، پتلی اور سنہرے گورے رنگ والی تھیں۔
دونوں نے ہی خوشگوار زندگی گزاری دونوں میں ایک خاموش معاہدہ تھا جب ایک کو غصہ آتا تو دوسرا بلکل خاموش رہتا میں نے بیک وقت دونوں کو لڑتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا بہت ہی خیال رکھتے تھے۔

بابا بتاتے تھے کہ ان کی ماں کا انتقال اتنی چھوٹی عمر میں ہوا تھا ان کو اپنی ماں کی شکل بلکل یاد نہیں تھی بابا کو تایا اور تائی نے پالا تھا جبکہ وہ دونوں بھی ان دنوں کوئی اتنے بڑے نہ تھے۔ اپنے تایا اور تائی کو کبھی ہم دادا اور دادی کہہ کہ بھی بلاتے تھے۔ چھوٹے سے بابا کو اپنے بیچ میں سلاتے کہ کہیں منا ڈر نہ جائے یہی وجہ ہے کہ بابا کی ہلکی پھلکی تکلیف پر بھی تائی ماں کی طرح بے چین ہوجاتیں تھیں۔

بابا ہمیشہ ہی بیٹا چاہتے تھے پر اکثر بیٹوں کی رحمت برستی رہی جہاں ہم سات بہنیں پیدا ہوئیں وہاں بھائی صرف ایک ہی تھا جو اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈلا بھی ہوتا۔ دادا کے گزرجانے کے بعد جب زمین کا بٹوارہ ہوا تو میرے دونوں تایا کا خیال تھا کہ علی کا تو ایک ہی لڑکا ہے باقی سب بیٹیاں ہیں وہ تو زمینداری نہیں کریں گی اس لئے ایک لڑکے کے حساب سے ہی ان کو زمین دی گئی کہ لڑکیوں کی زمینداری کی کوئی مثال ہمارے خاندان میں نہیں تھی یہ زمین نسبت کم تھی بابا کو اپنے بڑے بھائیوں کی کسی بات سے کبھی اختلاف ہوتا اور نہ کبھی اعتراض ہوتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے آتے ہی زرعی اصلاحات متعارف کروائیں تھیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کے نام بھی زمینیں رکھی گئیں کہ کوئی زمیندار مخصوص عدد سے زیادہ زمین نہیں رکھ پارہا تھا۔
جیسا کہ بابا کو کچھ کم زمین ملی تھی اس لئے انہوں نے سادگی اور کفایت شاری کا راستہ اختیار اور کچھ ہی عرصے میں کم پڑتی زمین خرید لی وہ خوامخواہ کی شوبازی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بابا کی ایمانداری کی وجہ سے سونا یا پیسے حفاظت کے لئے بابا کے پاس رکھوانے اگلے وقتوں میں لوگ بینک سے وابستہ کم رکھتے تھے بابا کی ذات میں خود غرضی نام کو نہ تھی۔

وہ منفرد زمیندار ہے۔ جب بھی ہماری کولھی ہاری عورتیں ناراض ہوتیں وہ سید ہا آکر بابا سے لڑکے جاتیں وہ خاموشی سے چارپائی پہ آلتی پالتی مارکے بیٹے سنتے رہتے۔ وہ شراب شباب سے دور ایک شریف نفس انسان رہے۔

ہمارے رشتے کے ایک چاچا ہنس کر ہمیں ایک قصہ سناتے تھے کہ کس طرح جب وہ بابا کے ساتھ کراچی گھومنے گئے تو ایک جگہ اوپری منزل سے ایک خوشبودار لفافہ آن گرا۔ اوپر دیکھنے پر پتاچلا ہے خوبصورت عورت سنگھار کیئے مسکرا رہی ہے پرچی میں بھی یہ لکھا تھا کہ اوپر چلے آؤ میں انتظار کررہی ہوں۔ مزید آپ تصور کرلیں۔ تیری ہاں میں تیری ہاں میں تیری ہاں او رانجھنا۔ ہمارے چاچا کا خیال تھا خاتون خوبصورت ہیں چلنا چاہیے پر بابا ان کو وہاں سے گھسیٹ کر لائے جبھی وہ کہتے اور ہنستے کہ تمہارے بابا کے ساتھ گھومنے جانا فضول ہے۔

بابا کی دلچسپی کتابوں اخباروں تک محدود تھی جب گاؤں میں رہتے تھے شام کو روز اخباروں کا پلندہ لاتے جن میں دو سندھی اخبار جن میں عبرت اور ہلال پاکستان اور ایک اردو اخبار جنگ ہوتے تھے جن دنوں میں کالیج میں پڑھ رہی تھی ہم دونوں ہی حامد میر کا کالم قلم کمان شوق سے پڑھتے اور آپس میں اس پر بات بھی کرتے تھے۔

سات بیٹیوں کی شادی بھی بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے وہ مرحلے وار سب کی شادیاں کرتے گئے۔ اماں کے گزرجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرتے تھے اور اداس رہے وہ میری بڑی بہن کے ساتھ آخر تک رہے اس گھر میں جو انہوں نے بیٹی کو خود بنوادیا تھا۔

وہ دوسرے شہروں میں بیاھی بیٹیوں کے انتظار میں رہتے ہم میں سے کوئی جا پہنچتا تو بچوں کی طرح خوش ہوجاتے اور پرانے قصے سناتے تھے ایک دفعہ مجھے بتارہے تھے کہ جب تم پیدا ہورہی تھیں تو میں نے یونین کونسل کا الیکشن جیتا تھا اور میرا انتخابی نشان گھوڑا تھا وہ ابھی تک کچھ پیپرز سنبھال کے رکھے تھے جو مجھے دکھائے۔

میری پیدائش کی باتیں بتاتے کہ میں نے شہر جیپ بھیج کے ڈاکر سکینہ کو بلوایا تھا جو اسکول میں بابا کی کلاس فیلو رہی تھیں پر ڈاکٹر کے پہنچنے سے کچھ گھڑیاں پہلے میں پیدا ہوچکی تھی امی بتاتی تھیں کہ ڈاکٹر سکینہ نے کہا اتنا صحت مند بچہ اگر شہر میں پیدا ہوتا ہے تو سرکار انعام دیتی ہے۔

وہ اپنے ہندوستان کے سفر میں بتایا کرتے تھے کہ ایک کزن اور ایک نوکر کے ساتھ بستر بند میں بسترے باندھ کے وہ چل نکلے تھے یہ لوگ راجستھان میں راجاؤں کے محل دیکھتے چلے تھے۔ آگرہ میں انہوں نے تاج محل دیکھا جو دریا کے کنارے تھا۔ دہلی میں یہ لوگ فلم دیکھنے گئے جہاں انٹرویل میں چیزیں بیچنے والے لوگ آگئے ان میں ایک آدمی پانی کے گلاس لئے پھر رہا تھا جو ان تینوں نے لے کے پیا پھر جب اس پانی والے نے فی گلاس ایک آنہ طلب کیا تو یہ حیران ہوگئے کہ پانی کے بھی کوئی پیسے بنتے ہیں کیا۔

جھگڑا بڑھا تو آس پاس کے لوگ اٹھ کے آئے جب ان کو پتہ لگا یہ سندھی ہیں سندھ سے آئے ہیں تو پانی والے سے کہا یہ سندھ سے آئے ہیں ان سے پیسے نہیں لینا۔ اس طرح یہ لوگ گھومتے پھرتے لاہور کے راستے واپس گھر پہنچے تھے۔

آخری عمر میں انہوں نے زمین پہ جانا چھوڑ دیا تھا۔ ایک دفعہ میں نے ان کو سراپرئز وزٹ دیا وہ اپنے مخصوص کمرے میں اپنی چارپائی پہ دیوار کی طرف منہ کرکے سورہے تھے میں نے ہلکے سے اپنا ہاتھ ان کے گال پہ رکھا انہوں نے آنکھیں کھول دیں وہ بہت خوش ہوئے یہ تم آئی ہو میں تو خواب میں سامارو پتھورو دیکھ رہا تھا میں ہنسی کہ بابا خواب میں بھی آپ سامارو پتھورو دیکھ رہے تھے جب کہ خواب میں تو یہ سہولت موجود ہے کہ سامارو کے بجائے سوئیزرلینڈ اور پتھورو کے بجائے پولینڈ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

وہ ہمیں دیکھ کے خوش ہوتے پر یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ہم لوگ روز روز اپنا گھر بار چھوڑ کے ان کے پاس جائیں۔ شام ہوتے ہی کہتے بس اب جلد واپس جانے کی کرو میں بلکل ٹھیک ہوں۔ گھر پہنچنے کے بعد خیریت سے پہنچنے کی اطلاع کرنا۔

ایک دفعہ گئی تو کہنے لگے اب ہمیں اجازت دو تو اللہ کے گھر جائیں یہ سن کر میں پریشان ہوگئی میں نے دو انگلیاں اٹھا کے کہا نہیں بابا ابھی نہیں دو سال اور رک جائیں۔ آخری دنوں میں مسلسل بیمار رہنے کے باوجود ضد پر رہے کہ ہسپتال نہیں جانا پر بھانجے نے کہا چلیں بابا گاؤں چلتے ہیں تو اس طرح وہ کار میں بیٹھے تھے اور ہم حیدرآباد تک لے آئے پر کیس بگڑا ہوا تھا اسی طرح بہانے سے کراچی کی آغا خان تک لائے۔

میں آغاخان پہنچ کے بابا کے پاس پہنچی وہ آئی سی یو میں تھے میں نے کان کے قریب کہا بابا میں آئی ہوں فاطمہ انہوں نے تھوڑی سی حرکت کی تھی میں نے پاس موجود عملے سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے احساس سے عاری انداز میں کہا آپ کے مریض ٹھیک ہیں۔ مگر بلڈ پریشر زیرو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ زندگی ہاتھ چھڑا رہی تھی کچھ ہی دیر میں بری خبر مل گئی تھی۔ ایمبولینس میں بابا کو اپنے گاؤں لے جایا گیا جہاں سب لوگ آخری دیدار کے منتظر تھے۔

جب میں پہنچی تو بابا کو اپنے پسندیدہ سفید لباس میں تیار کرکے گھر لایا جاچکاتھا۔ سردی کا موسم تھا رات کو سردی بڑھ گئی تھی سب بیٹیاں نواسیاں پوتیاں سب چارپائی کو گھیرے ہوئے رورہی تھیں چھوٹی اسرا اپنی ماں سے کہہ رہی تھی بابا کے اوپر رضائی ڈالو بابا کو ٹھنڈ لگ رہی ہوگی۔ میں نے آخری دفعہ اپنے بابا کے گال پر ہاتھ رکھا گال یخ ٹھنڈا ہورہا تھا وہ بلکل معصوم بچے کی طرح معلوم دے رہے تھے۔ پو پھٹنے سے پہلے لوگ چارپائی اٹھانے آگئے۔ اس طرح ہمارے بابا ہمیشہ کے لئے چلے گئے۔ ہم چلے اس جہاں سے دل اٹھ گیا ہے یہاں سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).