میری پہلی محبت کی آخری کہانی


(1)
دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹے، کتنی ہی کہانیاں سنتا۔ کبھی دین محمد لکڑ ہارے کا قصہ جسے مقدس درخت کاٹنے کی پاداش میں بندر بنا دیا جاتا ہے، کبھی خدا بخش کسان کی داستان جسے عمر بھر کی محنت اور سچائی کے عوض سونے کے سکوں سے بھری تھیلی ملتی ہے تو کبھی اسلم بِڈے کی کہانی جس کا قد بہت چھوٹا ہوتا ہے اور وہ ٹاٹ والے سکول میں پڑھنے کے باوجود ایک دن شہر کا سب سے بڑا افسر بن جاتا ہے۔ مجھے یہ ساری کہانیاں بہت اچھی لگتی تھیں اور میں دادی سے وقتاً فوقتاً اِنہیں سنا بھی کرتا تھا، مگر شہزادی عروسہ کی کہانی مجھے سب سے زیادہ پسند تھی۔

یوں تو اکثر کہانیاں اُدھوری رہ جاتیں مگر شہزادی عروسہ کی کہانی میں کبھی پوری سن ہی نہیں پایا کیونکہ ہر بار دادی کو نیند آ جاتی اور میں سوچتا رہ جاتا کہ جب کانے دیو نے شہزادی کے باپ کو قتل کر دیا اور شہزادی جادو کے قالین پر بیٹھ کے اپنی ریاست سے بھاگ گئی تو اُس کے بعد کیا ہوا۔ اگلی صبح میں جاگتے ہی دادی سے پہلا سوال یہی کرتا کہ شہزادے نے کانے دیو سے انتقام لیا کہ نہیں؟ دادی کوئی جواب ہی نہ دیتی۔ میں ضد کیے جاتا، وہ مسکرائے جاتی۔ آخر، جب میں جھنجھلا اٹھتا اور زور زور سے چلانے لگتا تو وہ بڑے رسان سے سمجھاتی کہ دن کو کہانیاں سننے اور سنانے والے دونوں دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے اور میں سہم کر خاموش ہو جاتا۔

کبھی کبھار میں سوچتا کہ دادی مجھے پوری کہانی کیوں نہیں سناتی۔ بہت ذہن دوڑاتا مگر کوئی سرا ہاتھ نہ لگتا اور آخر میں یہی نتیجہ نکلتا کہ کہ دادی کو جتنا معلوم ہے اتنا تو وہ سنا دیتی ہے اورآگے کی کہانی اس کو خود نہیں پتا۔

اُنہی دنوں میں امی کے ساتھ نانو کے گھر گیا تو وہاں مجھے شہزادہ گلفام کی کہانی سننے کو مل گئی۔ پھر کیا تھا میرے ہاتھ ایک نیا کھیل آ گیا۔ جونہی دادی، شہزادی عروسہ کو کانے دیو کے ہاتھ میں تھما کر خراٹے مارنے شروع کرتی، میں شہزادہ گلفام کو کہانی میں داخل کر کے من چاہے واقعات گھڑتا چلا جاتا اور آخر میں شہزادی کو کانے دیو کے چنگل سے چھڑا لاتا۔ میں نے یہ کھیل اتنی بار کھیلا کہ پتا ہی نہیں چلا کب مجھے شہزادی عروسہ سے محبت ہو گئی اور میں خود کو شہزادہ گلفام سمجھنے لگا۔
اب، اگلا مرحلہ شہزادی عروسہ کی تلاش کا تھا۔

پہلے تو میں اپنے محلے کی خواتین کو کنکھیوں سے دیکھتا رہا کہ شاید انہی میں سے کوئی شہزادی عروسہ ہو مگر ایک آدھ کے علاوہ کوئی بھی میرے معیار پر پوری نہیں اتری۔ مزید پتہ براری کی تو وہ ایک آدھ بھی شادی شدہ نکلی ؛ بہت غور کیا مگر اُس کا خاوند کہیں سے بھی کانے دیو جیسا دکھائی نہ دیا تو جان میں جان آئی۔

ابا جی دبئی سے واپس آئے تو اپنے ساتھ ایک ٹیلی ویژن سیٹ بھی لے آئے۔ چونکہ یہ محلے کی تاریخ کا پہلا ٹی وی تھا اِس لئے شام ہوتے ہی سب لوگ ہماری طرف اکٹھے ہو جاتے اور حیرت سے چوبیس انچ بڑی سکرین کو دیکھے جاتے۔ میری تو لاٹری ہی نکل آئی۔ ایک تو گھر میں چہل پہل بڑھ گئی جس کی وجہ سے خوب دل لگا رہتا، مزید یہ کہ شہزادی کی تلاش میں بھی آسانی ہو گئی کیونکہ ٹی وی کی ہر دوسری عورت مجھے شہزادی عروسہ ہی لگتی۔ ان دنوں قریب قریب ہر نیوز کاسٹر اور اداکارہ میرے ریڈار کی زد میں رہی مگر کہیں سے کوئی تصدیق نہ ہو پائی اور یوں معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا۔

ایسی ہی ایک رات تھی جب نوبجے والے خبرنامے کی جھلکیاں شروع ہوئیں تو بڑے بوڑھوں میں ایکدم کھسر پھسر سی شروع ہو گئی۔ میں نے چپکے سے کان لگا کر ان کی باتیں سنیں تو پتہ چلا کہ ایک عورت ہے جسے سب لوگوں نے مل کر نیا بادشاہ بنا ڈالا ہے کیونکہ اُس کے باپ کو کسی برے آدمی نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور فوراً ہی مجھے شہزادی کی کہانی یاد آگئی۔ توگویا سکرین پر بیٹھی خاتون، جس نے سر پر بڑے سلیقے سے چادر اوڑھ رکھی تھی اور نہایت اعتماد سے میری طرف دیکھتے ہوئے کچھ بول رہی تھی، اصل میں شہزادی عروسہ تھی۔ میں نے اِ س بار تھوڑا شرما کر اُس کی جانب دیکھا اور میرا دل زور زور سے دھڑکتا چلا گیا۔

ہر روز، رات کو سونے سے ذرا پہلے، میں اُس کی تصویر اپنے ذہن پر نقش کرتا اور اُسے سوچتا رہتا یہاں تک کہ میرے گال شرم کے مارے سرخ ہو جاتے اورمیری سانس رکنے لگتی۔ ایک چیز البتہ مجھے کافی پریشان کرتی تھی۔ شہزادی کو بادشاہت ملنے کا مطلب یہ تھاکہ اُس نے کانے دیو سے اپنے باپ کی کرسی واپس لے لی ہے تو پھرمیری یعنی شہزادہ گلفام کی جگہ کہاں بنتی تھی، جس نے اُسے اپنے کندھوں پر بٹھا کے دیوؤں کے لشکر کو شکست فاش عطا کرنی تھی اور کُشتو ں کے پشتے لگانے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شہزادہ گلفام بھی ہو جس کی مدد سے شہزادی نے اپنے باپ کا تخت واپس لے لیا ہے۔

ایسے کتنے ہی اندیشے تھے جنہوں نے مجھے اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ کسی بھی کام میں دل نہ لگتا۔ ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ ابا جان میرا گلا دبا رہے ہیں اور اس سے پہلے کہ میں مر جاتا، میری آنکھ کھل گئی۔ میں اتنے زور زور سے چلارہا تھا کہ سب جاگ گئے۔ خوف کے مارے میری حالت خراب تھی۔ پوری رات دادی میرے سرہانے بیٹھی آیت الکرسی پڑھتی رہی اور میں جاگتارہا۔

اگلا خواب اس سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ میں اور شہزادی، کانے دیو کی فوج کو ہرا کے اپنی سلطنت کی طرف جارہے ہوتے ہیں کہ ایک لمبا سا آدمی میری گردن پر تلوار رکھ دیتا ہے اور جیسے ہی میں پیچھے ہٹتا ہوں، وہ بڑی چالاکی سے میری دونوں ٹانگیں کاٹ دیتا ہے۔ پھر شہزادی اور وہ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مجھے ٹاٹا کرتے ہیں اور اڑتے ہوئے بادلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
اِس بار میں دھاڑیں مار مار کر رویا اور اُس وقت تک روتا رہا جب تک دادی کو ساری کہانی سنانہ دی۔ دادی کچھ دیر توہنستی رہی تھی۔ پھر اس نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور مجھے خود سے لپٹائے بولی۔ ” میرے سوہنے پتر کو شہزادی عروسہ ضرور ملے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر اُس دن جب وہ وڈا افسر بن کے آئے گا۔ ‘‘

اگرچہ دادی کی ساری باتیں میری سمجھ میں آگئی تھیں کہ جسے میں شہزادی عروسہ سمجھتا رہاوہ اصل میں بے نظیر نام کی کوئی شادی شدہ عورت ہے اور بادشاہ نہیں صرف وزیر ہے مگر اِس کے باوجود ہر رات، سونے سے ذرا پہلے، اُس کی تصویر میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگی اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے بارے میں سوچے جاتا یہاں تک کہ میری آنکھیں بھیگ جاتیں۔

(2)
زمانے گزر گئے۔ بچپن کسی اندھی کھوئی میں دفن ہو گیا۔ دادی اتنی بوڑھی ہو گئی کہ نہ وہ کسی سے بات کر سکتی ہے، نہ کسی کی بات سن سکتی ہے، بس سارا دن کھاٹ پر لیٹی ہوا میں گھوریاں چلاتی ہے، اور میں کہانیوں کی دنیا سے نکل کر خود ایک کردار بن گیا، مگر ہیرو نہیں بلکہ ایک عام سا کردار جسے زندگی کبھی بھی لائم لائٹ میں نہیں آنے دیتی، اور جس کے فن کی انتہا ہیرو کا وفادار دوست بننا ہے یا ہیروئن کا بھائی ( ورنہ ایکسٹرا تو وہ ہے ہی)۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ خوابوں کے ہوائی جزیرے سے اصلی اور جیتی جاگتی دنیا میں چھلانگ لگانے والے مہاجر ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں کیونکہ ان کے نصیب میں پڑاؤ نہیں لکھا، اس لئے جب میں روزو شب کی اکتا دینے والی یکسانیت سے گھبرا جاتا ہوں تو اپنے بچپن کے گھنے سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں ایک شام مناتا ہوں، ایک رات کرتا ہوں اور پھر اپنا بوجھ اپنے ہی کندھوں پر لادے خود کو واپس وہیں لا پٹختا ہوں جہاں میرے سر پرہُما بھی بٹھا دیا جائے تو میں شہزادہ گلفام نہیں بن سکتا۔

زندگی کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ اس میں کومے تو لگتے ہیں مگر کوئی فل سٹاپ نہیں آتا اور غالباً یہی زندگی کی سب سے بدصورت حقیقت بھی ہے کیونکہ آج جب میں اس جمود کا عادی ہو گیاہوں تو ایک بھیانک خبر نے میرے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایک نیوز چینل نے اپنے لائیو بلیٹن میں بے نظیر کے قتل کی اطلاع دی اور میرا سارا بچپن ڈائنا مائیٹ کے دھماکے سے اڑا دیا۔ شہزادی عروسہ کی کہانی اپنے ہی خون میں لت پت راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں پڑی ہے اورمیرا جی چاہ رہا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دادی کی گود میں جا لیٹوں اور اسے کہوں کہ بچپن کی سنی ایک ادھوری کہانی مکمل کر دے کیونکہ اس کا جو انجام زندگی نے لکھا ہے وہ مجھے قبول نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments