بیاد وسی بابا


سرور بارہ بنکوی نے کیا خوب فرمایا کہ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ ۔ آپ نے شائد نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ۔ زندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا تجربات کچھ اچھے رہے کچھ اچھے نہ بھی رہے ۔ فیس بک کے ابتدائی زمانہ میں بہت سے اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا ان میں سے ایک وسی بابا تھے ۔ بہت کھلی ڈُلی زبان میں اپنی رائے دینے والے ۔ مخاطب کو چند جملوں میں چِت کر دینے والے ۔ بہت اکھڑ مزاج لگے ۔ پھر ایک دن انہوں نے رابطہ نمبر طلب کیا اور پھر ان کی کال آ گئی ۔ بہت ہی شائستہ اور نفیس لہجہ ۔ اپنی باتوں سے بالکل برعکس ۔ کافی گپ شپ ہوئی پھر سلسلہ چل نکلا ۔

وسی بابا میں بہت سی خوبیاں تھیں ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع پر اس طرح شگفتگی سے بات کرتے کہ مزاح بھی قائم رہتا اور اصل پیغام بھی دوستوں تک پہنچ جاتا۔وہ اس بات کے قائل تھے کہ مزاح انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے ۔ کوئی ان کے مزاح سے لطف اٹھاتا تو کسی کو ان کا مزاح گولی کی مانند جا لگتا۔ بچپن پشاور میں گزرا جہاں کے بے شمار قصے انہوں نے ہمارے ساتھ شیئر کئے آبائی وطن پنجاب کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں وہ اتنا عرصہ رہے نہیں جتنےانہوں نے وہاں کے قصے شیئر کر ڈالے ایک جاٹ ہونے کے ناطے ان کی ” مج ” اور ” گاں ” ان کی کمزوری تھی جہاں کہیں وہ مج یا گاں کی تصویر دیکھتے تو بس دیکھتے ہی رہ جاتے دوستوں کے ساتھ وہ تصویر شیئر کر کے رائے لیتے کہ کیسی خوب صورت لگ رہی ہے  ۔ ان کی رائے سے اختلاف ان کے غصے کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ اپنی انہی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے وہ فیس بک پر مشہور ہوئے ۔

شگفتہ مزاج شخص تھے شگفتگی پھیلاتے رہے ۔ملکی حالات کے پیش نظر جب ہر شخص غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو ایسے میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا آسان نہیں ہوتا۔ وسی نے یہ کارنامہ بہت کامیابی سے سرانجام دیا ۔ دوست تو دوست سیاسی مخالفین بھی بہت بے تابی سے ان کی نئی پوسٹوں کا انتظار کرتے ۔ وہ طنزومزاح کے ایسے تیر چلاتے کہ سبھی اس سے لطف اٹھاتے ۔

ایک جماعت کے خلاف تو ان کی تحریریں تو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے ان کا کہنا تھا کہ ایسی تحریریں تو خود جماعت انہیں تحفے میں دیتی ہے کہ ان کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں لکھنے کے لئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی ۔ انہوں نے اپنی شگفتہ مزاجی کو اپنی خوب بنایا اور اسے نہایت کامیابی سے استعمال کیا ۔ ان کی تحریروں میں چھپی ذہانت پر بے ساختہ ان کو داد دینے کو جی چاہتا ۔ افغان جہاد پر وہ ایک بہترین تجزیہ کار تھے ۔ جس کی بنیادی وجہ ان کا افغان جہاد میں عملی حصہ لینا تھا کسی استاد کی مار سے تنگ آ کر وہ کابل جانے والی بس پر بیٹھے اور جہاد کے شوق میں کابل جا پہنچے ۔ کسی نیک جہادی کے ہتھے چڑھ گئے جس نے اگلی ہی بس پر انہیں واپس پشاور بھیج دیا ۔ اس دن سے وہ افغان جہاد پر ماہرانہ رائے دینے لگے ان کا

اصرار ہوتا تھا کہ انہی کی رائے کو مستند مانا جائے ۔ کسی کی خامیوں کو خوبیوں میں بدل دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا جسے وہ بہت سنجیدگی سے کرتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو چیز آپ کے نزدیک خامی ہے وہ کسی دوسرے کے نزدیک ایک بہت عمدہ خوبی بھی ہے حالانکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے بلکہ وہ اکیلے ہی خامی کو خوبی قرار دے رہے ہوتے ۔انہوں نے روزمرہ کے سیاسی مسائل ، حالات حاضرہ ، مذہبی مسائل و دیگر بین الاقوامی مسائل پر کمال شگفتگی سے اپنی ماہرانہ رائے دی ۔ ہر نظریئے کا بندہ یہی سوچتا کہ وسی بابا نے میری تائید کی ہے ۔ حالانکہ وہ سب کا مذاق اڑا رہے ہوتے ۔

وسی بابا جان چکے تھے کہ اب پرنٹ میڈیا اور الیکٹرک میڈیا کا زمانہ نہیں رہا ۔ا ب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔ وقت کی نبض کو پہچانتے ہوئے انہوں نے سوشل میڈیا میں اپنی جگہ بنائی ۔ مقبول ہوئے ۔ جانے پہچانے گئے ۔ اور پھر خدا جانے کہاں گئے

۔ وہ جہاں بھی رہیں دعا ہے کہ سکھی رہیں ۔ خوشیاں بانٹتے رہیں ۔ آمین

وہ دن ، وہ محفلیں ، وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے کہاں کہاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).