ہر اک اجنبی سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا


امی بتاتی ہیں کہ بچپن سے مجھے باہر گھومنے کا بہت شوق تھا۔ ہم شیخوپورہ میں واقع ایک فیکٹری کی کالونی میں رہا کرتے تھے۔ ایک چار دیواری میں وہاں کام کرنے والوں کے گھر تھے۔ ویک اینڈ پر لاہور جایا کرتے تھے۔ چڑیا گھر جاتے تھے۔ کون آئس کریم کھاتے تھے۔ جب رات گئے گھر قریب آتا تو میں رونا شروع کر دیتی تھی۔ امی بتاتی ہیں کہ بڑی مشکل سے بہلا پھسلا کر اس پہلوٹھی کی اولاد کو گھر داخل ہونے پر منایا جاتا تھا۔ وعدہ کیا جاتا تھا کہ سو کر اٹھتے ہی ہمیں جھولا جھلانے لے جایا جائے گا۔ خدا جانے کیا شوق تھا لور لور پھرنے کا۔

خیر وقت گزرا اور ہم جانے کب بچپن کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے جوانی میں داخل ہو گئے۔ امی کو لگتا تھا کہ لڑکی ذات ہے۔ روک ٹوک کرنی چاہیے۔ لیکن والد صاحب کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اس کے خلاف تھے۔ ہمارا گھومنا پھرنا اب اپنے اختیار میں تھا۔ لاہور شہر شفٹ ہو چکے تھے۔ مواقع بھی زیادہ تھے۔ آوارہ گردی کا چسکہ بڑا ظالم ہوتا ہے صاحب۔ کسی اوٹ کروٹ نہیں لینے دیتا۔ پیر میں چکر ہی رہتا ہے۔

خدا گواہ ہے کہ لاہور شہر کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ہم بسوں رکشوں اور قدموں پر فتح نہ کر چکے ہوں۔ پورا شہر مانوس لگنے لگا تھا۔ لاہور کے گلیوں کوچوں سے مدہم مدہم عشق سا ہونے لگا تھا۔ باوجود اس کے کہ ہم شروع سے اس شہر کے باسی نہ تھے لیکن اس میں کچھ ایسا سحر تھا کہ ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑ چکا تھا۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ معمول بن چکے تھے ہم اس شہر رنگ و بو کے۔

خیر وقت کی بڑی بری یا اچھی عادت ہے کہ رہتا نہیں۔ چلتا رہتا ہے چاہے بیساکھی سے ہی چلے۔ کسی زمانے کو بوجھ تلے کبڑائی ہوئی بڑھیا کی طرح۔ اور کبھی تیزی سے دوڑتے کسی نوجوان اتھلیٹ کی طرح جس کے ذہن میں بس یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سب سے پہلے رسی کو چھو لے۔ ایسا ہی ہے یہ بے اعتبار وقت۔ اس نے اپنی سرشت نہ چھوڑی اور ہم زندگی کے ایک نئے موڑ پر آ گئے جس سے ہر انسان کو گزرنا ہوتا ہے۔

جی ہماری شادی ہو گئی اور ہمیں ایک اور دیس سدھارنا پڑا۔ وہاں ریت تھی۔ مٹی تھی۔ گرمی تھی۔ عیش بھی تھی لیکن امی نہیں تھیں۔ جا کر بہت کچھ سیکھا۔ بہت کچھ پایا۔ دنیا کو ایک اور زاویے سے دیکھا۔ اپنی اوقات کو پہچانا۔ لاہور بہت یاد آتا تھا۔ یہاں کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک چوبارہ راتوں کو یاد آتا تھا۔۔۔ ‘کہاں ہو تم چلےآو محبت کا تقاضا ہے‘

دل کی اس لگی نے تین سال بعد ہمیں واپس کھینچا۔ یہ کشش اس قدر سخت تھی کہ کوئی سرحدیں بھی ہمیں روک نہ پائیں۔ ہم واپس آ گئے۔ لاہور کی زمین پر جہاز کے پہئے ٹکرائے اور دل ایک عجیب سی سرشاری سے لبریز ہو گیا۔

گھر پہنچے۔ رات کو سوئے۔ صبح جاگے۔ اگلی رات پھر سوئے۔ اگلی صبح پھر جاگے۔ ایسی کئی راتیں گزریں۔ ایسے کئی دن آئے۔ لیکن گھر نہ ملا۔ وہ شہر جو کبھی اپنا تھا اپنا نہ رہا۔ شاید پتہ کھو گیا تھا۔ شاید شہر بدل گیا تھا۔ شاید سب بدل گیا تھا۔ شاید ہم بدل گئے تھے۔ شاید سب کچھ بدل گیا تھا۔ گھر سے نکلتے تھے اور خالی آنکھوں سے لاہور کو کھوجتے رہتے تھے۔ جو چوبارہ دیکھنے جاتے تھے نہیں ملتا تھا۔ سب گرد میں اٹ گیا تھا۔ فضا میں بس ایک کالا تاریک دھواں تھا۔ لوگ بدل گئے تھے۔ سب کھوکھلے، سب نمائشی۔ چمکتی گاڑیاں، بدرنگ لوگ۔ اونچی عمارتیں، چھوٹے لوگ۔ بے آواز چہرے لیکن کانوں کو سن کر دینے والا شور جیسے کسی نے صور پھونک دیا ہو۔
اب ہم گھر میں ہی رہتے ہیں۔ باہر جانے پر روتے ہیں۔ واپس آنے ہر نہیں۔ وہ مدہم سا عشق اپنی موت آپ مر گیا۔ دکھ تو بہت ہوا لیکن کیا کیجئے۔ وقت چیز ہی ایسی ہے۔ نہ کسی انسان کو سدا رہنے دیتا ہے نہ کسی احساس کو۔

اب کہاں جائیں؟ کس سے پوچھیں؟ ہم نہیں جانتے۔ پتہ ہی کھو گیا ہے۔ ہر اک اجنبی سے اپنے ہی گھر کا پتہ پوچھتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔ اب تو واپس جانے کے بھی نہیں رہے۔ یہاں رہنے کے تو رہے ہی نہیں۔

اخبار میں گمشدگی کا اشتہار دیں گے
’ہمارا لاہور کھو گیا ہے۔ جس کو ملے اس پتے پر اطلاع کرے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).