ہمارے دیس کا بچہ، ہمارے بنائے فٹ بال اور فیفا ورلڈ کپ


کل شام اتفاقا” گھنٹہ پھر سو لینے کی وجہ سے صبح سوا تین بجے تک نیند آنکھوں سے دور رہی۔ لمحہ بھر آنکھ لگی تو پاکستان میں شاید نماز کے لیے بیدار ہوئے ایک مہربان نے وقت کا خیال رکھے بنا میسیج کر دیا، نیند بالکل خراب ہو گئی۔

بار بار شکستہ نیند کے بعد بالآخر بیدار ہونے کے باوجود بستر سے بلند ہونے کو جی نہ کیا۔ نہ صبح کی سیر کو گیا، سوچا بال کٹوانے کو پیدل جانے آنے سے حساب کچھ نہ کچھ چکایا جائے گا۔ مگر پھر سوا گیارہ بجے کپڑے اتارے اور نہانے کے لیے کھڑا ہوا۔ پانی کھولنے سے پہلے بال کٹوانا یاد آ گیا۔ باتھ ٹب سے نکلا۔ آئینے میں خود کو دیکھا تو سوچا چلو اگلے ہفتے سہی. پھر نہانے کو کود پڑا ۔ شاور پر ہاتھ رکھتے ہی پھر ارادہ بن گیا اور باہر نکلنے کے کپڑے یعنی پتلون اور سویٹ شرٹ پہن کر، صبح سے محسوس ہو رہی حدت کے سبب سینڈل پاوں پر چڑھا نکل کھڑا ہوا۔ ہیئر ڈریسر سے کچھ پہلے دھوپ میں چلنا پڑا تو دل کیا کہ کوئی تھرموس تھامے ” قلفی، کھوئے والی ، ملائی والی” کہتا سامنے آ جائے مگر یہ جاگتی آنکھوں کا خواب تھا۔

کل نماز جمعہ پر جانے کی وجہ سے برازیل کوستا ریکا کا فٹ بال میچ نہ دیکھ سکا تھا۔ صبح ہم سب ڈاٹ کام پر بی بی سی کی رپورٹ پڑھی جس میں سیالکوٹ کے طالبعلم شبیر کا ذکر تھا جو ٹاس کے دوران اس میں یوتھ ریپ تھا۔ سوچا تھا کہ نیٹ پر دیکھ لوں گا۔ جب میں داخل ہوا تو باربر شاپ کی ریسپشن پر ٹی وی پر اس میچ کی ریکارڈنگ دکھایا جانا شروع ہی ہوا تھا۔ بیٹھا دل میں سوچا کیا کہ جو دو مرد مشتری بیٹھے ہیں میں انہیں بتاوں گا کہ یہ بچہ میرے وطن سے ہے۔ جب یہ بچہ سامنے آیا تب تک ایک مشتری مجھ سے پہلے بال کٹوانے ہال میں جا چکا تھا۔

میں نے ساتھ بیٹھے طویل قامت سنجیدہ روسی کو جو بعد میں معلوم ہوا بال بنوانے آئیں اپنی بیوی اور بیٹی کے فارغ ہونے کے انتظار میں بیٹھا تھا، جلدی جلدی بتایا کہ یہ بچہ میرے وطن سے ہے۔ فٹ بال کھیلتا ہے۔ اس کا باپ، دادا، دادی فٹ بال سیتے ہیں، فٹ بال ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی گیند میرے وطن کے اس شہر میں مقامی کاریگروں نے بنائی ہے جہاں کا یہ بچہ ہے ۔

روس میں کسی انجان سے یوں براہ راست مخاطب ہونا معیوب خیال کیا جاتا ہے مگر مجھے اپنے فخر کا اظہار کرنا تھا لیکن میرا مخاطب بغیر بولے مجھے شک بھری نگاہ سے دیکھا کیا کیونکہ شبیر کی شکل کسی بھی برازیل بچے جیسی تھی اور اس موقع پر یہ بتایا نہیں جاتا کہ یوتھ ریپ کہاں سے ہے۔۔ تو کیا ہوا ہمارا یہی چھوٹا سا فخر تھا اس موقع کا چنانچہ اظہار کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).