دینی اداروں کے اساتذہ کرام کی تنخواہیں


یہ بات درست ہے کہ ایک دینی مدرسہ میں، چاہے بریلویوں کا ہو یا دیوبندیوں کا یا اہل حدیثوں کا بلکہ اس میں آپ معاصر اسلامی تحریکوں کو بھی شامل کر لیں جیسا کہ جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور تنظیم اسلامی وغیرہ، ان سب دینی اداروں اور جماعتوں میں اساتذہ کی تنخواہیں اور سہولیات، ان کے علم، قابلیت، محنت اور اوقات کار کے اعتبار سے گویا کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی دینی مدرسے کا شیخ الحدیث جتنی تنخواہ لیتا ہے، ایک یونیورسٹی میں گارڈ کی تنخواہ اس سے زیادہ ہے۔ اور یہ میں اندازے اور قیاس کی نہیں بلکہ یقینی بات کر رہا ہوں۔

دینی اداروں کے منتظمین اور مہتمین کو جب اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن وہی دینی ادارے اپنی ایکسٹینشن کے لیے ایسی عمارتیں کھڑی کرنے میں کروڑوں لگا دیں گے کہ جن کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اپنے ادارے کی ایڈورٹائزمنٹ اور پروپیگیشن میں اس قدر سرمایہ ہینڈ بلز، پمفلٹس، لیف لیٹس، بینرز اور فلیکسز وغیرہ کی پبلشنگ پر لگا دیں گے کہ جس سے سینکڑوں اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی تھیں اور یہ سب دینی لٹریچر سڑکوں پر رُل رہا ہوتا ہے اور بعد میں مقدس اوراق کے کسی ڈبے کی زینت بن جاتا ہے۔

پھر دینی اداروں کے منتظمین اور مہتمین کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کا نہ تو اپنا کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی ملازمت لیکن ان کی رہائش، کھانا پینا، گاڑیاں اور لائف اسٹائل دیکھیں تو وہ بہت ہی شاہانہ ہے۔ جن فنڈز کی کمی کا وہ رونا روتے ہیں، وہ کبھی ان کی اپنی بنیادی ضرورتیں بلکہ آسائشیں پوری ہونے کے وقت بھی کم نہیں پڑے، یہ عجیب صورت حال ہے۔ پھر بعض منتظمین تنخواہ تو کم لیتے ہیں لیکن ادارے سے رہائش، یوٹیلیٹی بلز، گاڑی اور فیول وغیرہ کی مد میں ماہانہ لاکھوں کی سہولیات وصول کر لیتے ہیں اور یہی سہولیات اسی ادارے کے ملازمین یا اساتذہ کو دیتے وقت فنڈز کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔

بھائی مولانا رعایت اللہ فاروقی صاحب اس ساری صورت حال پر ایک جملے میں خوب تبصرہ کرتے ہیں کہ اس سب کچھ کے باوجود کل قیامت کے دن اگر کسی دینی مدرسہ کا مہتم یا دینی ادارے کا منتظم حساب کتاب سے بچ گیا تو ہم سب مسلمان بچ جائیں گے۔ یہ اللہ عزوجل کو ان خیراتی اور زکاتی فنڈز کے استعمال کا حساب کتاب کیسے دے پائیں گے جو واش رومز کی ٹائیلوں اور ہینڈ بلز کے پیپر پر تو لگ رہا ہے لیکن کسی استاد اور ملازم کی بنیادی ضرررت کو پورا کرنے میں نہیں؟ دینی داروں کا پورا مالیاتی نظام مذہبی استحصال کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ بس اساتذہ سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ دین کے نام پر قربانی دو، دین اختیار کیا ہے تو اب قربانی دینی پڑے گی تو بھئی تم نے بھی تو دین اختیار کیا ہے نا، تمہاری قربانی کدھر ہے؟ ساری قربانی اور ایثار ان مساکین کے حصے میں ہی آنا ہے۔

مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ دینی اداروں کے ملازمین اور اساتذہ کے لیے مسابقتی تنخواہوں (competitive salaries) اور سہولیات کا اجراء کیا جائے ورنہ تو یہ برین ڈرین (brain drain) ہوتا رہے گا یعنی اچھے اور باصلاحیت افراد کی اکثریت کالجز اور یونیورسٹیز جوائن کر لیں گے اور مدارس اور دینی اداروں کے حصے میں پھوک باقی رہ جائے گا۔ اور پھر یہ رونا روئیں گے کہ دیکھو وہ دنیا دار ہو گئے ہیں کہ دین چھوڑ کر دنیا کے پیچھے لگ گئے ہیں حالانکہ بعض اوقات وہ دنیا دار ان دینداروں سے زیادہ دینی کام کر رہے ہوتے ہیں، بس ان کی دینی کام کی ڈیفی نیشن ذرا الگ ہے کہ ان کے نزدیک دینی کام وہی ہے جو ان کے ادارے کا کام ہو۔

یا پھر دوسرا اور سیدھا سادہ حل یہ ہے کہ ایک عام استاد اور ملازم کی سطح پر آ کر زندگی گزارو کہ صرف وہی سہولت حاصل کرو کہ جو ادارے کے تمام اساتذہ اور ملازمین کو حاصل ہو اور انہی کے پَے اسکیل کے مطابق تنخواہ حاصل کرو اور انہی کے لائف اسٹائل کے مطابق تمہارا لائف اسٹائل ہو تو پھر کسی کو تم پر اعتراض نہیں ہو گا۔ اور پھر اگر تم فنڈز کی کمی کا رونا روؤ گے تو لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں گے۔ اور سب اہم بات کہ اللہ کے ہاں کل حساب دینے میں آسانی رہے گی۔ باقی اگر تم ادارے کے لیے محنت زیادہ کرتے ہو تو تم نے یہ محنت اللہ کے لیے کی ہے یا دنیا کے لیے۔ اگر اللہ کے لیے کی ہے تو آخرت میں اجر کے طلبگار رہو، دنیا میں تو اس کا حصہ یوں حیلے بہانے سے وصول نہ کرو۔

تو مسئلہ فنڈز کی کمی سے زیادہ فنڈز کے استعمال میں ترجیحات کا ہے کہ منتظمین اور مہتمین فنڈز اسی مد میں خرچ کرنا پسند کرتے ہیں کہ جس سے ان کے زیر کنٹرول مدرسہ، ادارہ اور جماعت مضبوط ہو نہ کہ ملازمین، اساتذہ اور جماعتی کارکنان کیونکہ ادارہ اور جماعت ان کی سلطنت جو ہے اور ہر بادشاہ اپنی سلطنت کی حدود کی توسیع میں حریص ہوتا ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے لیکن ان کی اکثریت کے پاس ایسی تاویلیں ہیں کہ جنہیں سن کر قرآن مجید کی یہ آیت یاد آ جاتی ہے: أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا۔ ترجمہ: کیا آپ نے اس شخص ہر غور نہیں کیا کہ جس کے لیے اس کا برا عمل خوبصورت بنا دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے اس برے عمل کو خوبصورت دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).