الیکشن 2018: لاہور کیا سوچ رہا ہے؟



جس شعبے سے میں وابستہ ہوں،اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سیاست سے لیکر سماج،معیشت تک گفتگو اور بحث و مباحثہ کرنا عام سی بات ہے۔
اینکر سے لیکر دفتر کی کچن میں کام کرنے والے تک ہر انسان سیاسی تجزیہ کار ہوتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے سے منسلک ہر انسان کا تجزیہ یا تبصرہ دوسرے سے مختلف و منفرد ہوتا ہے۔ دو روز پہلے میری کچھ خواتین دوستوں کی محفل سجی تھی،یہ وہ خواتین تھی جن کا میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق تھا،ان میں سے زیادہ تر خواتین وہ تھی جو فیلڈ میں کام کرتی ہیں،عرف عام میں انہیں رپورٹر کہا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے میں بھی اس محفل کا حصہ تھی۔ شروع شروع میں بحث و مباحثہ میک اب سے شروع ہوا،جو میچنگ کپڑوں تک جاری رہا،اس کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک سیر حاصل گفت و شنید ہوئی،پھر کچھ خواتین نے دنیا کی سیاحت کی باتیں کی۔ ان میں سے چند ایک نے یہ خواہش ظاہر کی کاش وہ اس حسین دنیا کی سیر کرسکیں۔

بحث و مباحثے کا فائنل راونڈ سیاست تھا۔ اس حوالے سے سب نے سیاست کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا، زیادہ تر خواتین کی متفقہ رائے یہ تھی کہ جس طرح صورتحال ترتیب دی جارہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس مرتبہ نیازی صاحب کو وزیر اعظم پاکستان بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ ایک خاتون نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی لاہور میں فتح حاصل کرے گی،وہی پنجاب کی فاتح ہو گی،اب سوال یہ ہے کہ لاہور کیا سوچ رہا ہے؟ میری دوستوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ ن لاہور کی قومی اسمبلی کی چودہ سیٹوں میں سے تقریبا 13سیٹوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔ وہ خواتین جو مسلم لیگ ن کی شدید ناقد تھی،ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے لاہور مسلم لیگ ن کا گھر ہے، رپورٹرز کے مطابق لاہور کے عوام کی اکثریت اب بھی نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ ۔۔۔

2017 میں ہونے والی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیاں سب کے سامنے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں لاہور کا ایک حلقہ بڑھا ہے۔ اس شہر بے مثال میں قومی اسمبلی کے 14 حلقے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ان چودہ حلقوں میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 118 اب این اے 123 بن چکا ہے،جو شاہدرہ سے شروع ہوتا ہے اور شمس پورہ پر آکر ختم ہوتا ہے۔ اس میں گجر محلہ، عباس نگر، بیگم کوٹ، سگیاں وغیرہ جیسے علاقےشامل ہیں۔یہاں پر زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری آباد ہیں۔ این اے 119 نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 124 ہوگیا ہے۔ اس حلقے میں فوڈ سٹریٹ, مصری شاہ, رنگ محل, اندرون لوہاری گیٹ اور دیگر علاقے آتے ہیں۔یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ  ہے۔ خواتین رپورٹرز کے مطابق یہاں کسی سے بھی یہ سوال کریں کہ وہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں،تو اکثریتی شہریوں کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ پکے لاہوری ہیں اور ان کا ووٹ تو صرف اور صرف مسلم لیگ ن کے لئے ہی ہے۔ وہ کسی اور کو ووٹ دینے کے بارے میں سوچتے تک نہیں،یہ ایک حیران کن بات ہے۔

این اے 120 اب این اے 125 ہوگیا ہے۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہاں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کامیاب ہوئے تھے۔ یاسمین راشد جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، گزشتہ الیکشن میں وہ نواز شریف کے مقابلے پر آئی تھی اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس حلقے کےووٹرز کے مطابق وہ نوازشریف کے ساتھ ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ بھی برسوں سے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیتے آئے ہیں اور وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ این اے 126 جو پہلے این اے 121 تھا۔ اس حلقےمیں بابو صابو، یتیم خانہ، سمن آباد کی اردو رستم جیسے علاقے آتے ہیں۔ اس حلقے میں عوام کی رائے تقسیم ہے،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ یہاں جماعت اسلامی کے بھی اچھے خاصے سپورٹر ہیں۔ این اے 127 کا ذکر کر لیتے ہیں جو پہلے این اے 123 تھا۔ اس حلقے میں باغبانپورہ،نشاط پارک، یو ای ٹی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ 2008 میں یہاں ن لیگ کے مخدوم جاوید ہاشمی جیتے تھے۔ 2013 بھی ن لیگ کے محمد پرویز ملک کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 124 کا نام بدل کر اسے این اے 128 کردیا گیا ہے جس میں بھسین، لکھوڈیر، داروغہ والا، فتح گڑھ، حمید پور، سراج پورہ اور دیگر شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر نے انتخابات 2008 اور 2013 میں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کے رکن بنے۔

این اے 125 اب این اے 129 بن چکا ہے جس میں میو گارڈن، جم خانہ، مغل پورہ، ڈرائی پورٹ، شامی روڈ، لال پل، تاج باغ، سردار کینٹ غازی آباد، گڑھی شاہو، کینال بینک، دھرم پورہ، باجا لائن، تاج پورہ، تاج باغ، الطاف کالونی، ہربنس پورہ، مصطفیٰ آباد، عسکری فیز 10، 9 اور دیگر شامل ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے انتخابات 2008 اور 2013 میں کامیابی حاصل کی۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت لاہور کا حلقہ این اے 126 اب این اے 130 بن چکا ہے جس میں گلبرگ، ماڈل ٹاﺅن، پیکو روڈ، گارڈن ٹاﺅن، اقبال ٹاﺅن، وحدت روڈ، اچھرہ، شادمان، فردوس مارکیٹ، سمن آباد، کلمہ چوک، اولڈ ایئر پورٹ، عسکری 5 فلیٹس، ماڈل ٹاﺅن ایکسٹینشن شامل ہیں۔ عمر سہیل ضیاء بٹ نے انتخابات 2008 میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 2013 میں یہاں سے تحریک انصاف کے اکلوتے امیدوار شفقت محمود نے کامیابی حاصل کی تھی۔ لاہور کی یہ وہ واحد قومی اسمبلی کی سیٹ تھی جہاں سے پی ٹی آئی کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 میں برکی ہڈیارہ، پنگالی، میر جاہمن، جلو، ڈی ایچ اے فیز 8، کاہنہ 9، کمیٹی کاہنہ، بھٹہ چوک، بیدیاں روڈ، گجومتہ، جھلکے، گاگا، روڈاں والا اور ہیر شامل ہیں۔ پہلے یہ حلقہ این اے 130 کہلاتا تھا۔ چھٹی مردم شماری کے بعد لاہور میں حلقہ این اے 131 کا اضافہ ہوا ہے اس لیے اسے واضح کرنے کیلئے ترتیب سے ہٹ کر بیان کیا جارہا ہے تاکہ لوگ بہتر طور پر اس نئے حلقے سے واقف ہوسکیں۔این اے 131 میں آر اے بازار، کیولری، والٹن، ڈیفنس، بیدیاں روڈ، ایئر پورٹ، علی پارک نادر آباد، عارف آباد، چنگ خورد بیدیان، بھٹہ چوک، غوثیہ پارک، شوکت ٹاﺅن، محمد پورہ اور چونگی امر سدھو شامل ہیں۔ لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت، دلکش کالونی، اتفاق فیکٹری، مولانا شوکت علی روڈ، باگڑیاں روڈ،،لیاقت آباد، قینچی چونگی، ٹاﺅن شپ جوہر ٹاﺅن اور وفاقی کالونی پر مشتمل حلقے کو این اے 133 کانام دیا گیا ہے، پہلے یہ حلقہ این اے 127 کہلاتا تھا۔ کاہنہ نو، باگڑیاں، دھرم پورہ، راکھ چندربابا، کچا جیل روڈ، اتحاد پارک، ستارہ کالونی، پاک ٹاﺅن، کماہاں روڈ، سادھوکی (ویلنشیا ٹاﺅن)، کچہ، کماہاں، محمد علی کالونی، گلشن یاسین کالونی اور المعراج کالونی کے رہائشی این اے 134 میں ووٹ کاسٹ کریں گے، پہلے یہ علاقہ این اے 129 کے میں آتا  تھا۔

لاہور کے ذیل میں دیے گئے علاقے این اے 135 کا حصہ ہوں گے، پہلے یہ حلقہ این اے 128 تھا۔ ٹھوکر نیاز بیگ، اعوان ٹاﺅن، رائیونڈ تحصیل، رکھ کھمبا، کاہنہ نو، خوشحال پارک، جلال پارک، حسن ٹاﺅن، کھاڑک نالہ، علامہ اقبال ٹاﺅن، مرغزار کالونی، مہر پورہ، مصطفیٰ آباد، رانا ٹاﺅن، ہنجروال شامل ہیں۔

این اے 128 اب نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 136 بن چکا ہے، اس میں چوہنگ، مانگا منڈی، مراکہ، پجیال، رائیونڈ شہر، نوازش آباد، موہلنوال، بھائی کوٹ، مانگا اتر، شامکے بھٹیاں، علی حسین آباد، مدینہ سکول، بابا زندہ پور، موہنی وال اور پنجاب ہاﺅسنگ اتھارٹی شامل ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں اس حلقے کو 128 کا نمبر دیا گیا تھا۔

خواتین رپورٹرز کے مطابق وہ تمام حلقوں کا سروے کر چکے ہیں،لاہور میں مسلم لیگ ن کے سپورٹرز  پی ٹی آئی سے زیادہ ہیں،اس لئے ان کی رائے کے مطابق دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن لاہور میں فاتح رہے گی۔ ایک خاتون رپورٹر کے مطابق لاہور میں عوام کی اکثریت مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کررہی ہے۔ عوامی مقبولیت میں (ن) لیگ پہلے، تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے،اس لئے نتائج بھی اسی ترتیب سے آنے کی توقع ہے۔ میری ایک اور دوست رپورٹر کی بھی یہی رائے تھی کہ پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی بھی مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کو کم نہ کرسکی۔اور حیران کن بات یہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ لاہور میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ اگر لاہور میں مسلم لیگ ن کی لہر ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ پورے پنجاب میں ن جیتے گی ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پچیس جولائی کو ہی مل سکے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).