ووٹ دینے کی بات چل رہی ہے کہ رشتہ دینے کی؟


پاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ میں نے اپنے گاؤں کے ایک بزرگ سے پوچھا کس کو ووٹ دیں گے؟ کہنے لگے جو ہماری ذات کا ہوا۔ شہر کی ایک دوست سے پوچھا کہ اس بار کسے ووٹ دینے کا ارادہ ہے، کہنے لگیں جو ہمارا ہم زبان ہو گا۔ ایک اور دوست سے استفسار پر جواب ملا کہ ان کا خاندان اس امیدوار کو ووٹ دے گا جو ان کی برادری کا ہو گا۔ کچھ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ ووٹ دینے کی بات چل رہی ہے کہ رشتہ دینے کی۔

مانا قدامت پسند گھرانوں میں رشتہ طے کرتے وقت ذات برادری، حسب نسب، علاقائی تعلق اور ہم زبانی کو فوقیت دی جاتی ہے اور شادی کے امیدوار ان کی انھی کسوٹیوں پر پرکھ کر کے سب سے موزوں رشتہ وہی قرار پاتا ہے جو ہم زبان، ہم علاقہ اور ہم ذات ہو۔ شادی تک تو بات سمجھ آتی ہے کہ شاید اس طرح دونوں خاندان یکساں پس منظر کی وجہ سے آسانی سے آپس میں جڑ جاتے ہوں۔ ہمارے یہاں ویسے بھی شادی دو افراد نہیں دو خاندانوں کا میل ہوا کرتی ہے، چلو یہاں تک تو مان لیا لیکن انتخابات میں امیدوار کے چناؤ کے لیے یہ کسوٹیاں کس حد تک کارآمد ہیں کچھ عقل سے ماورا سی بات ہے۔

ہمیں جمہوریت مل تو گئی لیکن کیا ہم اس کے لئے ذہنی طور پر تیار بھی ہیں کہ نہیں؟ کیا جمہوریت کی دیوار ٹیڑھی تو نہیں تعمیر ہو گئی؟ ووٹر کو حق رائے دہی حاصل تو ہے لیکن وہ اپنا حق ایمان داری سے استعمال کر رہا ہے کہ نہیں؟ یاد رہے ووٹ ایک امانت ہے۔ جس طرح شادی کے امیدوار کے سماجی اور ذاتی معاملات کی چھان بین کی جاتی ہے اسی طرح انتخابا ت میں امید وار کی زبان کے بجائے اس کے کردار پر غور کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔

اگر ہم لسانیت اور ذات برادری پر قابو پا بھی لیں تو ایک اور مشکل وہاں آتی ہے جہاں ہمیں بڑی برائی اور چھوٹی برائی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ فطری طور پر ہم چھوٹی برائی منتخب کر لیتے ہیں۔ ایک اور طبقہ ایسا ہے جو اس سارے عمل سے اتنا مایوس ہو چکا ہے کہ وہ اتتخاب کے دن کو قومی تعطیل کی صورت مناتے ہیں یعنی ووٹ ہی نہیں دیتے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جنھیں ڈرا دھمکا کر ووٹ دینے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جن کا نام ووٹر لسٹ میں سے غائب کر دیا جاتا ہے لیکن ووٹ پھر بھی جادوئی طور پر پڑ جاتا ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ ان شادیوں میں مہمانوں کی تعداد زیادہ اور بر وقت ہوتی ہے جہاں شادی والے گھر سے بس بھر کر مہمان لانے کا انتظام ہوتا ہے۔ کیا حسین اتفاق ہے کہ انتخابات میں بھی یہی فارمولا صادق آتا ہے۔ جس امیدوار نے بس بھر کر ووٹر لانے کا بندوبست ٹھیک نہ کیا وہ روز انتخاب بے بس ہوا اور اس کا ڈبا بے وزن ہی نکلا۔ ہمارے انتخابات اور ہماری شادیوں کی تقریبات میں اتنی مماثلت ہے کہ بار بار عقل چکرا جاتی ہے۔

شادیوں میں کھانے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور اتتخاب کے روز بھی بڑھیا کھانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اچھا کھانا کھا کر طبیعت میں جو سرور آتا ہے وہ بھی انتخابی چناؤ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جس طرح شادی کا سلسلہ تصویر دکھا کر شروع کیا جاتا ہے با لکل یہی واردات انتخابی امیدوار بھی کرتا ہے۔ شادی کے امیدوار کی تصویر اور انتخابی امیدوار کی تصویر پر یکساں ہوم ورک کیا جاتا ہے اورعا م طور پر وہی تصویر منتخب کی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی قا بل ذکر تعلق نہیں ہوتا۔ شادی سے پہلے شادی کارڈ آتا ہے اور انتخاب سے پہلے ووٹر کارڈ۔ جیسا کہ دستور ہے کہ شادی کے موقع پر کچھ قریبی عزیز و اقارب ناراض ہونا فریضہ اول گردانتے ہیں اور منتیں ترلے کرنے کے بعد ہی تقریب میں شرکت کا عندیہ دیتے ہیں، بالکل اسی طرح ووٹر کو بھی اسی موقعے پر ناز و انداز دکھانے کا موقع ملتا ہے اور پھر شکوے شکایتیں دور کر کے ہی پولنگ سٹیشن کو رونق بخشی جاتی ہے۔

ہمارے ماموں کی شادی انتخابات کے موسم میں ہوئی تھی۔ سارے باراتی بسوں میں بھر کر دوسرے شہر عازم سفر ہوئے۔ راستے میں پولیس نے باراتیوں سے بھری بسوں کو ہائی جیک کر کے علاقے کے انتخابی جلسے میں پہنچا دیا۔ ہم ماموں کی شادی کے بجائے انتخابی جلسے کے شریک بالجبر بنا دیے گئے۔ بڑی مشکل سے بسوں اور باراتیوں کو رہائی ملی اور ہم اپنی منزل مقصود پہنچے اور انتخابی جلسے کے بجائے شادی کا کھانا نوش فرمایا۔

ہمارے سماج کی ریت ہے شادی کو ہر حال میں نبھایا جاتا ہے۔ سیاسی وابستگیاں بھی ایسے ہی نبھائی جاتی ہیں۔ بھلے پچھلی بار امیدوار نے علاقے میں تنکا نہ توڑا ہو پر ”ایک واری فیر“ کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ بھلے لوگو وفاداری ازدواجی رشتے میں ضروری ہے، سیاسی وابستگی تو سیاسی پارٹی کا منشور دیکھ کر قائم کی جانی چاہیے۔ ہمیں چاہیے شخصیت پرستی سے نکل کر ہر پارٹی کے منشور کا بغور مطالعہ کریں۔ پارٹی کے ماضی میں کیے گئے وعدوں کے وفا ہونے کو بھی مد نظر رکھیں۔

آج کل تو انتخابی امیدواروں کے اثاثوں پر بحث جاری ہے۔ کچھ نے تو اتنی انکساری سے اپنے اثاثے بتائے ہیں کہ ڈر ہے کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ کہیں زکوة نہ مانگ بیٹھیں۔

جیسے ہر شادی کے کلائمیکس پر کوئی بزرگ اچانک بستر علالت پر پہنچ جاتا ہے اس طرح قسمت کا کھیل عین انتخابی دنوں میں کسی نہ کسی اہم انتخابی امیدوار کو اسپتال کے بستر پر پہنچا دیتا ہے۔ جیسے شادیوں میں کوئی پراسرار فون کال اچھا بھلا رشتہ تڑوا بھی دیتی ہے بالکل اسی طرح کوئی پراسرار ہاتھ جادو کی چھڑی گھماتا ہے اور انتحابی نتا ئج پلٹا کھا جاتے ہیں۔

بس ہم تو دعا گو ہیں کہ یہ شادی نما انتخاب بخیر و عافیّت انجام پائے، ہم پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھیں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).