لندن میں پیدل سڑک پار کرنے کا چارٹرڈ جہاز میں عمرہ کرنے سے موازنہ


ملک میں انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم میں کچھ ایسی پھنسی ہیں کہ عوامی رابطہ مہم لیٹ ہو گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس تو بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی ایک وجہ موجود ہے جس کی وجہ سے تمام معاملات لیٹ ہو رہے ہیں۔

پہلے میاں نواز شریف کو لندن جانا پڑ گیا بعد میں بیگم کلثوم نواز کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ میاں شہباز شریف کو بھی لندن جانا پڑ گیا۔ اس لیے سب کچھ لیٹ ہو گیا۔ تاہم عمران خان کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ۔ لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ان کی اپنی جماعت کے اندر اتنا شدید رد عمل سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے انھیں نہ صرف ٹکٹوں کی تقسیم پر نظر ثانی کا اعلان کرنا پڑ گیا بلکہ بنی گالہ پر دھرنوں نے انھیں اپنے ہی گھر میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔ عمران خان نے اپنے پارٹی ورکرزکو خود ہی سکھایا ہے کہ دھرنے اچھے ہوتے ہیں اوراب جب ان کے گھر کے باہر دھرنے دیے جا رہے ہیں تو وہ پریشان ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بنی گالہ کے باہر دھرنا ہے تو ن لیگ میں بھی بغاوت نظر آرہی ہے۔ لیکن اگر جمہوری تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں کی صورتحال میں بہت فرق ہے۔ ن لیگ میں چوہدری نثار علی خان اور زعیم قادری اپنی انفرادی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے اپنی جماعت سے گلے شکوے انفرادی ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذات کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ زعیم کو ٹکٹ نہیں ملا وہ ناراض ہے۔ چوہدری نثار علی خان کو وزارت عظمیٰ نہیں ملی وہ ناراض ہیں۔ جب کہ دوسری طرف بنی گالہ میں جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگ رہے۔ وہ عمران خان کو یاد کروا رہے ہیں کہ وہ اپنے نظریہ سے دور چلے گئے ہیں۔

ایک طرف انفرادی بغاوت ہے جب کہ دوسری طرف بے لوث کارکن اپنے خوابوں کے ٹوٹنے پر احتجاج کر رہا ہے۔ ایک طرف ذاتی لڑائیاں ہیں دوسری طرف لوٹوں کے خلاف احتجاج ہے۔ اس لیے دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ ایک طرف بڑے بڑے سیاسی جن اپنی طاقت کے لیے اپنی جماعت سے لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کسی نظریہ یا کارکن کی لڑائی نہیں لڑ رہا۔دونوں اپنی ذات کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کا کارکن اپنے لیڈر کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ کارکن نے اپنے لیڈر کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔

اسی طرح اس وقت ملک میں وزارت عظمیٰ کے دو بڑے امیدوار سامنے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔جب کہ تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کس کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی سوچ اور پسند ہو سکتی ہے لیکن فیصلہ عوام کا ہی چلے گا۔

لیکن اگر دیکھاجائے تو اب ان دونوں رہنماؤں کی چھوٹی چھوٹی حرکتیں بھی عوام کے سامنے ہیں۔ عمران خان جس طرح ایک چارٹرڈ جہاز پر عمرہ کرنے گئے وہ بھی سب کے سامنے تھا۔ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکلوانا بھی سب کے سامنے ہے۔ اب تو نگران وزیر داخلہ نے بھی مان لیا ہے کہ انھوں نے زلفی بخاری کا نام خود بلیک لسٹ سے نکالا تاکہ وہ عمران خان کے چارٹرڈ جہاز میں عمرہ کی سعادت حاصل کر سکیں۔

دوسری طرف میاں شہباز شریف کی لندن سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ تیزی سے سڑک پار کر رہے ہیں۔ اب آج کل ان دونوں معاملات کا بھی تقابلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کا تقابلی جائزہ بنتا ہی نہیں۔ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ـ”کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء” ۔ کہاں چارٹرڈ جہاز کہاں پیدل سڑک پار کرنے والا معاملہ۔ لیکن شائد تحریک انصاف کے دوست بہت کوشش کر رہے ہیں کہ چارٹرڈ جہاز اور بلیک لسٹ والے معاملے کو دبانے کے لیے سڑک پار کرنے والے معاملہ کو بڑھایا جائے۔

میاں شہباز شریف کے ناقدین ان کے لندن پیدل سڑک پار کرنے والی ویڈیو کو بہت دلائل کے ساتھ ان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس میں برائی کیا ہے۔ وہ لندن میں اپنی بھابھی کلثوم نواز کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ نجی نوعیت کا دورہ تھا۔ سارا خاندان پریشان تھا۔ کوئی سیر پر نہیں گئے تھے اور نہ کوئی سیاسی دورہ تھا۔ اکیلے گئے ہوئے تھے۔ ایسے میں اگر اکیلے سڑک پارکرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں تو کیا ہوا؟کیا وہ بھابھی کی عیادت کے لیے بھی پروٹوکول کی صورت میں ایک جم غفیر کو ساتھ لے جاتے؟

لیکن شائد تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے یہ عجیب بات ہے۔ کیونکہ ان کا لیڈر تو اے ٹی ایم کے بغیر کہیں جاتا ہی نہیں ہے۔ وہ اگر عمرہ کرنے بھی جائیں تو ان کے امیر دوست ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ چارٹرڈ جہاز ساتھ ہوتا ہے۔ آگے گاڑیوں کا قافلہ ساتھ ہوتا ہے۔ ایسے میں پیدل سڑک پار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے عمران خان نے اپنے بیرونی دوروں کی جو تفصیلات حلف نامے کے ساتھ جمع کروائی ہیں ان میں اکثر دوروں کے اخراجات انھوں نے خود ادا نہیں کیے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کے پاس اپنی کوئی گاڑی بھی نہیں ہے لیکن جب وہ چلتے ہیں تو گاڑیوں کا قافلہ ہوتا ہے۔

ایک سے ایک مہنگی گاڑی ان کے لیے تیار کھڑی ہوتی ہے ۔ تقابلی جائزہ تو اس بات کا بھی بنتا ہے کہ ایک وزیر اعظم کا امیدوار لندن عام جہاز میں بطور عام مسافر گیا ہے۔ دوسرا وزیر اعظم کا امیدوار عمرہ کرنے وی آئی پی طریقے سے گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اچھا تقابلی جائزہ ہے۔لیکن پھر بھی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پیدل سڑک پار کرنا بڑا جرم ہے یا کسی کے پیسوں سے چارٹرڈ جہاز لے کر عمرہ کرنا بڑا جرم ہے۔ کیا لندن میں ٹیکسی کی سواری جرم ہے یا زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکلوانا بڑا جرم ہے؟ لیکن پھر بھی ایک صحت مند جمہوری معاشرہ میں ایسے تقابلی جائزے ہونے چاہیے۔

یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اس میں لیڈر اپنے ہر عمل پر جوابدہ ہوتا ہے۔ اسی لیے مرے وہ دوست جو اس جمہوری نظام سے نالاں رہتے ہیں اور دلائل دیتے تھکتے نہیں کہ پاکستان میں جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔ انھیں سمجھنا ہو گا کہ کیا وہ کسی آمر کا ایسا تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں۔یہ جمہوریت کا ہی حسن ہے کہ ہم بات کر سکتے ہیں۔ سوال کر سکتے ہیں۔ جواب مانگ سکتے ہیں۔

میں مسلسل یہ بات لکھ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کے دوست بدلتے سیاسی منظر نامے اور بدلتی سیاسی حقیقتوں کا ادراک نہیں کر رہے۔ وہ اب بھی دھرنے کے موسم میں ہی زندہ رہ رہے ہیں۔ وہ اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مخالف کو گندا کر کے وہ یہ الیکشن جیت لیں گے۔ ان کا کام صرف اپنے مخالفین پر الزام لگانا ہے۔ وہ اتنا شور مچائیں گے کہ کسی کوکچھ اور سنائی ہی نہیں دے گا۔ اور اسی شور میں وہ جیت جائیں گے۔ لیکن میرے خیال میں شائد اس کا وقت گزر گیا ہے۔ پاکستان کے عوام اب الزامات کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو اور وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کو ان کے کام پر بھی جانچا اور پرکھا جائے گا۔

کہیں نہ کہیں تو عمران خان اور ان کی ٹیم کو جواب دینا ہو گا کہ آخر انھوں نے کے پی کے میں اپنے پانچ سالہ دور میں کیا کیا ہے۔ انھوں نے ایک چھوٹے سے صوبے میں ایسا کیا کام کیا ہے جس کی بنیاد پر انھیں پورے پاکستان کی حکومت دے دی جائے۔ یہی سوال میاں شہباز شریف سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آخر انھوں نے پنجاب میں ایسا کیا کیا ہے جس کی بنیاد پر انھیں پورے پاکستان کی حکومت دے دی جائے۔ کیا صرف اس بنیاد پر ووٹ دیا جا سکتا ہے کہ کون کس پر کتنا سنگین الزام لگا سکتا ہے۔ یہ الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ تب ہی جمہوریت کو صحیح سمت مل سکے گی۔

(بشکریہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).