پالیسی سازی: خلا کیا۔ زمیں کیا؟


سندھ، پنجاب اور مرکز میں منتخب حکومتیں جاتے جاتے کئی پالیسیاں متعارف کرواگئیں۔آخری چند ہفتوں میں وفاقی حکومت نے فوڈ سیکورٹی، داخلی سیکورٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، واٹر، پنجاب نے انسانی حقوق اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ پر ، سندھ حکومت نے کچھ سرکاری ملازمتیں مستقل کرنے اور زرعی پالیسی کا اعلان کیا۔اتنی پالیسیاں یکے بعد دیگرے آئیں کہ موضوع سے د لچسپی رکھنے والوں کے لئے بھی حساب رکھنا مشکل ہوگیا۔

فاٹا اصلاحات پر قانون سازی پرتاخیر کا دفاع کون کرسکتا ہے ؟مگرجغرافیائی صورت حال کے پیش نظر اس معاملہ پر وفاقی اور خیبر پختون خوا حکومت کی عجلت قابل فہم ہے۔ یہ بھی درست کہ فاٹا اصلاحات پر مکمل نہ سہی ایک وسیع اورعملی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ باقی اہم امور پر پالیسی بنانا اپریل مئی 2018تک کیوں اٹھا رکھا گیا۔

پالیسی ایسے بیانیے اور منصوبوں کو کہا جاتا ہے جن سے اداروں کو روزمرہ کے فیصلے کرنے میں راہنمائی اور مدد لی جاتی ہے۔لیکن بیشتر متذکرہ پالیسیوں کی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پالیسی ڈرافٹ میں وہ بات نہیں پائی جاتی جس سے کاروبار ریاست بہتر طور پر چلانے میں مدد لی جاسکے ۔ کہیں قانون میں دیئے گئے تحفظ اور وعدے وعید کو پالیسی دستاویزات میں کامیابی تصور کر لیا گیا ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ اگر قانون موجود ہے تو اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ کہیں حکومتی اداروں کو راہنمائی اور انکی ذمہ داریوں کی تقسیم واضح نہیں مثلاً داخلی سیکورٹی میں کہیں وزارت ِخارجہ یا وزارتِ دفاع کا کو ئی کردار بنتاہے تو اس کے انجذاب کی شکل کیا ہوگی ؟

مثلاً انسانی حقوق کی وزارت اور انسانی حقوق کے کمیشن میں تقسیمِ کار یا رابطے میں پالیسی کیا رہنمائی دیتی ہے؟ پھر کسی ابہام کی صورت میں تصفیہ کیسے ہو گا؟ ایک پالیسی دستاویزکو ان سوالوں کا جواب بھی مہیا کرنا چاہیے۔

ویسے تو ہر پالیسی ڈرافٹ الگ تبصرے کا متقاضی ہے مگر چند عمومی باتیں بیشتر پالیسیوں کے بارے عرض کرنا پڑتی ہیں جو بد قسمتی سے خوش کن نہیں ہیں۔ کئی پالیسی ڈرافٹ تو ایسے ہیں جن میں گرامر کی غلطیاں اورآدابِ حکمرانی کی تفہیم کے نمونے دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ قومی اہمیت کی ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے کی منظوری کیسے ملی۔

مجوزہ قومی ایجوکیشن پالیسی 2017اور پنجاب انسانی حقوق پالیسی کے بارے یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ محترم وزراء اگر دوبارہ اپنے اپنے پیغامات دوبارہ پڑھ لیں جنہیں پالیسیوں کا دیباچہ بنا یا گیا ہے تو وہ انہیں دوبارہ تحریر کرنے یا کروانے کی ضرورت محسوس کریں گے۔لہذا پالیسی سازی کے عمل میں اتنا وقت تو ہونا چاہیے کہ ایڈیٹنگ کی جاسکے ۔ مواد بغیر حوالہ دیئے یا کٹ پیسٹ چھاپے کی تو بالکل کوئی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جمہوری دور میں یہ بھی تو ہونا چاہیے کہ سرکاری پالیسیاں عوامی مفاد اوربعض صورتوں میں عوامی خواہشات کی آیئنہ دار ہوں۔ یہ کام تبھی ممکن ہے جب غیر جانبدارعوامی نمائندگی کا کوئی بھی مناسب طریقہ کارپالیسی سازی کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔

اکثر اوقات پالیسی ڈرافٹ بنانے کا کام کسی کنسلٹنٹ یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے کروایا جاتا ہے جس سے حاضر سروس افسران لاتعلقی کا رویہ ا ختیار کر لیتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پالیسی سازی کے دوران اور بعد ازاں عمل درآمد کے وقت پالیسی اونرشپ نظر نہیں آتی ۔ اوپر سے نیچے تک عملے اور افسران میں پالیسی سے اجنبیت اورلا غرضی سی نظر آتی ہے۔ بھلا پالیسی سازی کا یہ اسلوب عوام کوحقوق دلوانے یا سہولیات بہم پہنچا نے میں کیامدد گار ثابت ہو گا ؟

کنسلٹنٹ یا بین الاقوامی ڈونر/تنظیموں سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن پالیسی بنانے کی مرکزی ذمہ داری عوامی نمائندے اور حاضر سروس افسروں پر ہونی چاہیے اور یہ بھی ضروری ہے کہ غیر جانبدار ماہرین کی رائے لی جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پالیسی بنانے سے پہلے اسے عوامی جائزے اور رائے عامہ کے کے لیے پیش کر دیا جائے کیونکہ بالآخر یہ پالیسیاں ناصرف عوام کے لئے بلکہ انکی قیمت عوام کی جیب ہی سے ادا ہوتی ہے۔ ـَ

مندرجہ بالا پالیسیوں میں ایک بہتر مثال داخلی سیکورٹی پالیسی کی ہے۔پالیسی ڈرافٹ میں نظری آہنگ نظر آتا ہے ۔ٹائمنگ ،مقاصداور اقدامات کی واضح نشاندہی قابل تحسین ہیں۔ کہنے کویہ پالیسی بھی وفاقی کابینہ کے آخری اجلاس میں پاس کی گئی لیکن وزارت داخلہ نے کچھ غیر معمولی حالات میں کام کیا۔ ایک تو حالیہ پالیسی گذشتہ NISP 2013۔2018کے اختتام پر آئی لہذا-2018 NISB 2023 تاخیر کا شکار نہیں ہوئی ۔وزارت داخلہ میں احسن اقبال صاحب کی چند ماہ ذمہ داری اور پھر ان پر قاتلانہ حملہ۔اس صورت حا لات کے باوجود پالیسی سازی ممکن ہوئی۔

پالیسی کے سقم کو پالیسی بحران اور پالیسی کے جزوی یا مکمل سکوت کو پالیسی کا خلاء کہاجاتا ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ نئی پالیسیوں کے آنے سے کتنے خلا پُر ہوئے اور کون سے پالیسی بحرانوں کا حل مل گیا۔ تجویز یہ ہے کہ ان تمام پالیسیوں کو ایک ورکنگ ڈرافٹ مان کر ان پر عمل درآمد کر کے دیکھاجائے ۔ نئی حکومتوں کی تشکیل کے چھ ماہ کے دوران کمزوریوں کی نشاندہی کی جائے اور ترامیم کر کے ایسے تمام خلاپُر کیے جائیں جو کئے جاسکتے ہیں۔اس کام کے لیے اگلی پالیسی آنے کا انتظار نہ کیا جائے۔ پالیسی خلا کو پُر کرنے کے لیے مو جود وقت اورزمین کواستعمال کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).