سحاب قزلباش کی محبت اور عمران خان کی آزمائش


انتخاب کا میلہ سج چکا۔ امیدواروں کی کم و بیش حتمی فہرستیں سامنے آ گئیں۔ ٹکٹوں کے لین دین پر لے دے جاری ہے۔ ایک ہنگامہ سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کو درپیش ہے۔ ادھر انتخابی مورچوں میں کسی کو اسٹبلشمنٹ ، بیانیہ، معیشت، خارجہ پالیسی، سول بالا دستی اور جمہوریت جیسے سوالات سے غرض نہیں۔ جمہوریت کے بارے میں چوٹی زیریں کے جمال لغاری کی گل افشانی ہم نے سن لی۔ سندھ میں آغا سراج درانی کے مثانے اور ووٹ کا رشتہ بھی مشتہر ہو چکا۔ فریال تالپور نے ہمیں چند ماہ پہلے سمجھایا تھا کہ دادو کے لوگوں کو کسے ووٹ دینا ہے اور کیوں؟

گوجرانوالہ سے تحریک انصاف کے امیدوار ناصر چیمہ نے تو انتخابی بینر پر چیف جسٹس اور آرمی چیف کی تصویریں جما کر اپنا منشور گلیوں اور بازاروں میں آویزاں کر دیا۔ چہ دلاور است دزدے…. محترم پرویز رشید کا ایک قابل غور جملہ خبروں کے ازدحام میں دب کر رہ گیا۔ فرمایا، ’چوہدری نثار کو اختیار ہے، چاہیں تو آزاد امیدوار بن جائیں اور اگر دل مانے تو قید امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ لیں‘۔ مشکل مگر یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں غلامی، آزادی اور قید کے خدوخال کبھی واضح نہیں ہو پائے۔ یہی سبب ہے کہ جہاں احباب کو انتخابی نتیجے کی فکر ہے، درویش بے نشاں کو ایک بڑے زیاں کا خدشہ لاحق ہے۔ جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے۔

نصف صدی گزری، ہم نے پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالا۔ مڈنائٹ چلڈرن کا خطاب پانے والی نسل 1970 میں تئیس چوبیس برس کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اس نسل کی سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیوں کو بھٹو صاحب نے ایک خواب دیا۔ یہ خواب مغربی پاکستان میں انتخابی کامیابی میں تبدیل ہوا اور پھر بھٹو صاحب تبدیل ہو گئے۔ انقلابات ہیں زمانے کے….

نئے پاکستان میں بھٹو صاحب کے بدلاؤ کی قیمت الطاف گوہر، صلاح الدین، مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی اور حسین نقی جیسے صحافیوں نے تو ادا کی لیکن جے اے رحیم، خورشید حسن میر، مختار رانا اور معراج محمد خان جیسے رفیقوں کو بھی اس کی آنچ پہنچی۔ بھٹو صاحب کے عوامی انقلاب کی ناکامی خوابوں کی شکست کا ایسا گھمبیر المیہ تھا کہ ایک پوری نسل کا اصول اور منزل سے ایمان اٹھ گیا۔

ستر کی دہائی کا یہ بجوگ سیاسی آرزوؤں اور تلخ زمینی حقیقتوں کے تصادم کا پہلا تجربہ نہیں تھا۔ 1930 کی دہائی میں اقبال کی سوچ اور شخصیت سے جلا پانے والے ملک برکت علی، پیر تاج الدین، غلام رسول خان اور عاشق حسین بٹالوی جیسے پنجاب کے تعلیم یافتہ سیاسی رہنماؤں کے نام اب کسے یاد ہیں؟ علی گڑھ اور لاہور کے طالب علم جو مسلم لیگ کا پیغام لے کر گوٹھ گاؤں تک پھیل گئے تھے…. اور پھر 1946ءہو گیا۔ آگ دوڑی رگ احساس میں گھر سے پہلے۔ پنجاب میں یونینسٹ جاگیر داروں کا جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونا وہ المیہ تھا جس سے فسادات، ہجرت اور متروکہ املاک کے سانحے برآمد ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کے مناظر دیکھنے والوں کی اخلاقی قامت ہمیشہ کے لیے مجروح ہو گئی۔ کوئی خوش نصیب ہو گا جو اس سیل بلا سے خشک دامن لے کر برآمد ہوا ہو۔

فروری 1953ء میں عاشق حسین بٹالوی ہمیشہ کے لئے برطانیہ چلے گئے تھے۔ پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے غلام رسول مہر سے ان کا مکالمہ خاصے کی چیز ہے، کبھی ’یادیں اور تاثرات‘ میں دیکھیے گا۔ یہ وہی عاشق حسین تھے جو ڈاکٹر سید حسین اور ڈاکٹر محمد اشرف سے قائد اعظم کی قیادت قبول کرنے کی التجائیں کیا کرتے تھے۔

ذکر چلا ہے تو آپ کو ایک جملہ محمد حسن عسکری کا بھی یاد دلا دوں۔ رسالہ ساقی میں 1946 کے کسی شمارے میں جھلکیاں لکھتے ہوئے بیان دیا کہ ’میں مسلم لیگ کو چار سو فیصد عوامی جماعت سمجھتا ہوں‘۔ یہ عشق کی ابتدا تھی، انتہا دیکھنا ہماری نسل کے حصے میں آیا۔ اکیس کروڑ کی آبادی میں عوام صرف چار فیصد رہ گئے۔ پاکستان کا خواب دکھانے والوں نے یہ تو کبھی نہیں کہا تھا کہ اس ملک میں عقیدے کی بنیاد پہ شہریت میں درجہ بندی کی جائے گی۔

یہ پرانے قصے چھیڑنے کا مقصد دل کے داغوں کی بہار دکھانا نہیں۔ لکھنے والے کو شرح صدر کے ساتھ ایقان ہے کہ پاکستان کا حقیقی سرمایہ یہاں کے نوجوان ہیں۔ جنہوں نے نصاب میں دیانت اور انصاف کے اصول پڑھے ہیں، اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس نے نئے ہزاریے کے آس پاس گویا پچھلی صدی کی آخری دہائی میں جنم لیا۔ نئے پاکستان کے بیانیے سے عمران خان نے اس نوجوان نسل کے دلوں میں امیدوں کے بیج بو دئیے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دس برس قبل جسٹس افتخار چوہدری کی تحریک میں اعتزاز احسن کے جملے “ریاست ہو گی ماں کے جیسی” نے نوجوان دل فتح کر لئے تھے۔ اب مڑ کر دیکھئے، علی احمد کرد، اعتزاز احسن، طارق محمود اور افتخار چوہدری…. شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل نے ملک میں دہشت گردی دیکھی ہے۔ امیر اور غریب میں بڑھتی ہوئی خلیج دیکھی ہے۔ انصاف کی خرید و فروخت دیکھی ہے۔ صحافی کے لفظ میں جھوٹ اور منافقت کی ملاوٹ دیکھی ہے، اس نسل کو کسی سیاسی جماعت نے سیاسی تربیت کے عمل سے گزارنے کی زحمت نہیں کی۔ اس نسل کے لیے پچاس، ستر اور نوے کی دہائیوں میں ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ پرانے قصے ہیں، یہ نسل نہیں جانتی کہ آمریت کے گملے میں بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی نمود ہماری کس تاریخی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ یہ نسل لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن، لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اور لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کی وہ سرمایہ کاری نہیں جانتی جس نے کرکٹ کے ہیرو عمران خان کو سیاست کے میدان میں ایک سنجیدہ امکان کا روپ بخشا۔

اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے وہ خوب صورت، تازہ فکر اور ولولوں سے معمور نوجوان کارکن ان دنوں خلجان میں مبتلا ہیں جو عمران خان کی گاڑی سے اڑتی دھول کو کحل جواہر سمجھتے تھے۔ یہ تو ایک تاریخی تجربے کا اعادہ ہے، انتخابات کا نتیجہ تو وہی ہو گا جو عوام اپنے ووٹوں سے طے کریں گے۔ عام انتخابات کے روز اس طرح کی دست کاری ممکن نہیں ہوتی جو سات دروازوں کے پیچھے محفوظ کمروں میں کی جاتی ہے، جہاں چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو ہمیں خود کو اس آزمائش کے لیے تیار کر لینا چاہئیے کہ تحریک انصاف کے مایوس کارکنوں کی ایک بڑی تعداد لمبے عرصے کے لیے سیاسی شراکت اور جمہوری نصب العین سے بیگانہ ہو جائے گی۔ اس قومی نقصان کی پیش بندی کی کچھ ترکیب نکالنی چاہیے۔ فیض صاحب نے 1929 کی کساد بازاری کے بارے میں ایک جملہ لکھا تھا کہ ’بہو بیٹیاں بازار میں آن بیٹھیں‘۔

خدا نہ کردہ کسی قوم پر یہ وقت آئے۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نیک نیت اور مخلص کارکنوں ہی پر موقوف نہیں، خود عمران خان پر بھی بہت سی حقیقتوں کا انکشاف ہونے جا رہا ہے، بس اتنا اشارہ کافی ہے کہ جنرل یحیی خان بھٹو صاحب کے ساتھ لاڑکانہ میں شکار کھیلا کرتے تھے۔ نواز شریف کو جنرل ضیا الحق نے وہ دعا دی تھی جو مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنے بیٹے نصیر الدین ہمایوں کو دی تھی۔ بات دہلی تک جا پہنچی ہے تو سحاب قزلباش یاد آ گئیں۔ دہلی ریڈیو پر میرا جی نے نیل کنول سی سحاب قزلباش کو بادلی بیگم کا خطاب دیا تھا۔ ایک مختصر نظم میں کسی پرانی محبت کی بخیہ گری کرتے ہوئے سحاب قزلباش نے لکھا تھا، ’جیسا تم کو چاہت ہیں، ویسا ہم کو بھی چاہت تھے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).