الیکشن 2018: ’ہمارے قدامت پسند معاشرے میں مضبوط خاتون کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں‘


پاکستان

عوامی نیشنل پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی امیدوار شہناز راجہ

‘آخر کہاں لکھا ہے کہ اسلام میں عورت سیاست میں نہیں آ سکتی یا مرد اور عورت برابر نہیں؟’ یہ شہناز راجہ ہیں جو کہتی ہیں کہ انہیں ہمشہ لوگوں کو قائل کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک عورت پر اعتماد کریں اور انہیں ووٹ دیں۔ شہناز راجہ نے آج ہی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے، وہ خیبر پختونخواہ کے حلقہ اڑتیس سے انتخابی مہم میں حصہ لینے والی واحد خاتون ہیں۔

پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح یہاں بھی خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ شہناز راجہ کے مطابق یہاں ووٹ ڈالنے کی اجازت تو ہے لیکن ‘ووٹ کِس کو دینا ہے، یہ گھر کا مرد فیصلہ کرے گا’۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی سے ووٹ لینے کے لیے سب تیار ہو جاتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ووٹ مانگنے آ جائے تو کبھی اسلام کے نام پر اور اور کبھی معاشرتی روایات کے نام پر عورت کو روک دیا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں ہر سو میں سے پچیس خواتین ایسی ہیں جن کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہیں یا ان کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں۔ بلوچستان میں سو میں سے 27، پنجاب میں 22 جبکہ سندھ میں 20 خواتین ان عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکیں گی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تقریباً ساڑھے دس کروڑ ہے۔ جن میں مرد ووٹرز 5.8 کروڑ سے زائد اور خواتین ووٹرز 4.5 کروڑ سے زائد ہیں۔

پاکستان

شہناز راجہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں مضبوط خاتون کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں

شہناز راجہ عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ خیال رہے کہ 2018 کے ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی بڑی تعداد کو جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیے ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا سے ہی ڈھائی سو سے زیادہ خواتین نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے، جبکہ حتمی فہرست 27 جولائی کو آویزاں کی جائے گی۔ یہاں کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اس سے پہلے خواتین کو ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں تھی تاہم 2017 میں انتخابی اصلاحات کے بعد اب ہر حلقے سے دس فیصد خواتین کا ووٹ ڈالنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

شہناز راجہ ہمیں اپنے حلقے کے ایک گاؤں ڈھیری میرا لے گئیں۔ یہ اس حلقے کے دیگر دیہاتوں کی نسبت اس لیے اہم ہے کہ یہاں سب سے زیادہ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن یہاں جانے کے لیے پکی سڑک نہیں۔ یہاں ایک پرائمری سکول کے علاوہ لڑکیوں کے لیے علیحدہ سکول نہیں۔ اس گاؤں میں گیس اور پانی نہیں۔ تعلیم نہ ہونے کے ’باعث عورتیں اپنے حقوق سے ناواقف ہیں۔’

ان کے مطابق ’اس علاقے میں عورت پہلے گھر کے کام کاج کرتی ہے، پھر پہاڑوں سے لکڑیاں لاتی ہے، کھیتوں میں کام کرتی ہے، مویشی سنبھالتی ہے، پھر بھی اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کچھ عورتیں یوں ہی زندگی گزارتی ہیں جبکہ کچھ اپنی جان لے لیتی ہیں، یہ یہاں ایک عام بات ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس علاقے میں سکول کالج اور خواتین کے لیے تربیتی مراکز بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ مختلف ہنر سیکھ سکیں۔ ان کے مطابق شاید یہی وہ سوچ ہے جو یہاں کے مردوں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ ’بدقسمتی سے ہمارے کنزرویٹو معاشرے میں مضبوط خاتون کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں، اس لیے نہ اُسے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے نہ ووٹ مانگنے کی۔‘

پاکستان

شہناز راجہ کے مطابق ملک میں تبدیلی صرف خواتین لا سکتی ہیں

شہناز راجہ اس سے پہلے لوکل باڈیز کے انتخابات جیتتی رہی ہیں۔ ان کو بھی سیاست میں آنے والی دیگر مِڈل کلاس خواتین کی طرح خاندان سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ‘میرے شوہر اور بچوں کی حمایت میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں بھی یہاں کی باقی عورتوں کی طرح گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی تھی۔ سب سے پہلے کردار کشی کی جاتی ہے، پھر یہ سوچا جاتا ہے کہ ایک عورت ہو کر کیسے سیاست کر لی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ‘کئی ایسے واقعات ہوتے رہے جن سے دل ٹوٹ جاتا، مثلا ایک عورت کے لیے وہ چاہے کسی بھی عہدے پر ہو، مرد سے کام کروانا ایک مشکل کام ہے۔ لوگ فقرے کستے ہیں، مجھے اکثر سرکاری افسران کہتے کہ ایک عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے، گالم گلوچ بھی برداشت کرتی رہی ہوں۔ لیکن میں نے ثابت کیا کہ میں اپنے لوگوں کے مسائل حل کر سکتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ طویل جدو جہد کے بعد اب ’لوگ گندی نظروں سے نہیں دیکھتے کیونکہ اب وہ جانتے ہیں کہ میں ایک مضبوط عورت ہوں۔‘

ان کے مطابق پاکستان میں کوئی جماعت تبدیلی نہیں لا سکتی، ’اگر کوئی تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ اس ملک کی خواتین ہیں۔ خواتین سیاست میں آئیں گی تو یہ ملک بدلے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp