پاکستانی معاشرے کو قندیل بلوچ کی نظر سے دکھاتی کتاب


قندیل بلوچ

جب میں نے یہ سنا کہ قندیل بلوچ پہ کوئی کتاب لکھ رہا ہے تو مجھے اس کتاب کو پڑھنے کی رتی برابر بھی تشنگی نہ ہوئی۔

وہ اس لیے کیونکہ جولائی 2016 کے بعد سے، یعنی وہ مہینہ و سال جسکے بعد قندیل ہم میں نہ رہی، اسکی کہانی پر ہر چینل، ہر اخبار، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پہ موجود ہر جاننے والے نے اتنا تبصرہ فرمایا کہ اب قندیل کی کہانی عبرت کی نشانی بن کے رہ گئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ قندیل کی زندگی کی ہر چیدہ حقیقت متعدد ڈاکومنٹریوں کا مرکز بن چکی ہے۔

لہٰذا میں سوچتی تھی کہ صنم مہر کی کتاب ’دی سینسیشنل لائف اینڈ ڈیتھ آف قندیل بلوچ‘ میں مجھے ایسا کیا پڑھنے کو ملے گا جو کہ میں پہلے سے ہی نہیں جانتی۔ یا وہ تمام لاکھوں لوگ جو قندیل کے ستارے کو جلتے اور بجھتے دیکھتے آ رہے تھے اس کتاب میں کچھ ایسا پا سکیں گے جو چینلوں کی زینت نہ بنا ہو کہ اسکو کس لیے مارا گیا، اسکے ماں باپ کس شہر میں رہتے تھے، اس کی آخری ویڈیو کو کتنی گالیاں پڑیں، مفتی قوی اور مبشر لقمان کے سامنے قندیل بلوچ نے ہمارے معاشرے کے دہرے معیار اور شاونسٹ اقدار کو کیسے فاش کیا۔ اور قندیل کی لاش کی تصویر جو ٹیلی ویژن سکرین پہ درجنوں ٹی وی چینلوں پہ چلی اور اسکے بھائی وسیم عظیم کا سب کے سامنے اقرار جرم اور یہ کہنا کہ وہ بلوچ ہے اس لیے اس نے اپنی بہن کو قتل کر دیا اور اسے اسکا کوئی ملال نہیں، آخر کتاب میں کیا کوئی نئی بات ہو سکتی ہے جو میڈیا کے ہیجان سے بچی رہی؟

لیکن جب کتاب ہاتھ لگی اور میں نے اس کے صفحات میں سچ کو ٹٹولتی صنم مہر کی زبانی قندیل بلوچ کی روداد سنی تو احساس اس بات کا ہوا کہ ان کہانیوں کا ایک کتاب میں بھی ہونا کس قدر ضروری ہے۔ مہر، جو کہ ایک پاکستانی صحافی ہیں، اپنی تعارفی تحریر میں لکھتی ہیں کہ کتاب ختم کرنے کے بعد بھی سوالات کا ہونا اس کتاب کی جیت ہوگی۔ 11 ابواب پہ مشتمل یہ کتاب قندیل کی موت سے شروع ہو کے قندیل کی موت پہ ہی ختم ہوتی ہے۔ جس سے پڑھنے والے کو ایک مسلسل اضطراب کی کیفیت میں رہنا پڑتا ہے، شاید یہ ہی مصنفہ کا مقصد ہے۔

کتاب میں چند باب ایسے ہیں جن کا قندیل سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔ مثال کے طور پہ ایک باب ’ارشد چاۓ والا‘ پہ مبنی ہے جبکہ ایک باب پاکستانی وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس کی وکیل، نگہت داد، کے بارے میں ہے۔ یہ چند باب تھوڑی دیر کے لیے آپ کو معاشرے میں موجود بقیہ کرداروں کی طرف اپنی توجہ ضرور دلواتے ہیں لیکن چونکہ کتاب کا عنوان، اسکا آغاز اور اسکا مرکزی کردار قندیل ہیں، لہٰذا پڑھنے والے کی توجہ صرف قندیل کی کہانی کی طرف مبذول رہتی ہے۔

صنم مہر قندیل کے کیس کے زاویے سے پاکستانی معاشرے کی کئی حقیقتوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ قندیل کے گاؤں شاہ صدر دین کے بارے میں، ’غیرت‘ اور غیرت کے نام پہ قتل، پولیس کی کارروائی، غربت اور امارت کی واضح تفریق اور قندیل کے ماں باپ اور انکے وکیل اس کتاب میں اعداد و شمار کے ساتھ موجود ہیں اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ مہر نے کئی مہینوں اور ہفتوں کی محنت سے انٹرویو کے ذخیرے جمع کئے ہیں۔

کہیں کہیں لگتا ہے قندیل خود سے مخاطب ہیں اور عوام ان کے اندرونی ڈائیلاگ کا حصہ ہیں۔ مگر یکدم بیانیہ ایک مشاہدے کے آئینے میں ڈھل جاتا ہے اور ہم اور آپ پھر سے قندیل کو دیکھنے والے تماشائی بن جاتے ہیں۔

ایک مافوق الفطرت سوشل میڈیا ستارے سے پرے یہ کتاب قندیل کو ان تمام لبادوں میں بھی دکھاتی ہے جو اسے ہمارے اور آپ جیسا بناتے ہیں۔ وہ غلطیاں کرتی ہے، بنا آنسو روتی ہے اور اپنی ماں کے پیر دبا کے سکون محسوس کرتی ہے۔

قندیل کی زندگی کی وہ چند حقیقتیں جن پہ شاید میڈیا کی وجہ سے نظر ثانی نہ ہو سکی اس کتاب میں واضح دکھائی دیتی ہیں۔ کتاب پڑھ کے یہ دکھ بھی بہت ہوا کہ ڈرامہ سیریل باغی نے قندیل کی زندگی کے کئی رنگوں کو ٹی وی کے لیے بدل کے رکھ دیا اور کاش کہ جتنی ریسرچ صنم مہر نے اس کتاب کے لیے کی ہے اتنی ہی ریسرچ ڈرامہ سیریل والوں نے بھی کی ہوتی۔ یا اگر کی تھی تو وہی حقیقتیں ڈرامہ سیریل میں بھی دکھائی جاتیں۔ ڈرامے میں عثمان خالد بٹ کو قندیل کی زندگی کا ہیرو بنا دیا گیا اور مفتی قوی جیسے کردار کو مکمل طور پہ ہٹا دیا گیا جبکہ قندیل کو قتل کی دھمکیاں مفتی قوی کے ساتھ کھینچی جانے والی تصویروں کے بعد موصول ہوئی تھیں۔

اس کتاب میں سچ اور فیصلہ کن حقیقت یہی ہے کہ قندیل کو غیرت کے نام پہ صرف اسکے بھائی نے قتل نہیں کیا بلکہ اس معاشرے کے غیرت سے اٹوٹ بندھن نے قتل کیا جو ایک غریب اور مجبور عورت کی اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پہ آواز اٹھانے کو ایک جرم قرار دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp