بہترین ہوٹل، مسلم کموڈ اور عرب مسافروں کی دیگر مخصوص ضروریات


ہوٹل بہت شاندار تھا۔ شاندار کے ساتھ ساتھ کچھ اور بالکل نئی نئی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عجیب وغریب چیزیں تھیں تو کہنا غلط نہیں ہوگا اوروں کے لئے شاید عجیب وغریب نہ ہوں مگر کم ازکم میرے لئے تو عجیب وغریب ہی تھیں۔

بات یہ ہے کہ اپنے کام کے سلسلے میں مجھے بہت سے یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنے کا موقع ملا تھا مگر یہ ہوٹل بہت ہی مختلف تھا بالکل مختلف۔ یورپ اور امریکہ کے ہوٹلوں، موٹلوں اور مہمان خانوں سے۔

ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ میں مشرقِ بعید کے ملکوں میں پہلی دفعہ آیا تھا۔ یورپ کے تقریباً ہر بڑے شہرمیں جانا ہوا تھا، نئے ہوٹلوں میں بھی اورپرانوں میں بھی۔ پرانی پرانی عمارتوں میں جس طرح جدید سہولتیں مہیا کی گئی ہیں یہ ان کا ہی کمال ہے۔ میں زیادہ تر پانچ ستاروں والے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ہی رہا تھا جہاں کام کے لئے رہنے والوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں ہوتی ہیں۔ آج کل تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے مگرجب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ عام نہیں تھے اس وقت کاغذ، قلم، ٹائپ ٹیلیفون اور فیکس، ٹیلکس کی سہولتیں موجود ہو تی تھیں۔ سکریٹری بھی وقت پر مل جاتے، جو اپنے کام میں ماہر ہوتے تھے۔

عام طور پر صاف ستھرے کمرے، صاف ستھرے چادروں، تولیوں کے ساتھ صابن، شیمپو، چائے کافی بنانے کی سہولت، ٹیلی ویژن کے ساتھ ملتے تھے۔ کام کا کام اور آرام کا آرام۔ مگر یہ ہوٹل بہت ہی شاندارتھا۔ داخل ہونے کے ساتھ ہی ہوٹل کا ایک آدمی جیسے میرے لئے مقرر کردیا گیا تھا۔ شاید اسے میرے نام یا شکل سے اندازہ ہوگیا کہ میں مسلمان ہوں۔

اھلاً وسہلاً یا اخی، السلام وعلیکم۔ اس نے بڑے احترام سے جھک کر اور شاید عرب سمجھ کر مجھے متوجہ کیاتھا۔
سلام اعلیکم میں نے ہنس کر جواب دیا۔ یہ ہم لوگوں کی عجیب عادت ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں السلام علیکم ہی کہتے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں اکثر و بیشتر وعلیکم السلام کے بجائے السلام وعلیکم ہی بولتا تھا۔

وعلیکم سلام وعلیکم سلام کہہ کر اس نے سامان لانے والے کو اشارہ کیا اور مجھے سیدھا، استقبالیہ کے کاؤنٹر پر لے گیا تھا۔
اسپیشل مہمان کے لئے مسلمان کارکن ہے ریسیپشن پر۔ ان کا نام ہے سلطانہ۔ اس نے استقبالیہ پر بیٹھی ہوئی خوبصورت سی لڑکی سے مجھے متعارف کرایا تھا۔
اس نے مسکراکر مجھے غور سے دیکھا اور میرے دیے ہوئے پاسپورٹ کو دیکھتے ہوئے کمپیوٹر کے اسکرین پر میرا نام تلاش کرنا شروع کردیا۔

سولہ سو ایک آپ کے کمرے کا نمبر ہے جناب۔ دو طرف سمندر اور ایک جانب باغ ہے جہاں مختلف جانور آپ کو نظر آئیں گے کمرے میں ہی ایک دوربین بھی لگی ہوئی ہے جس سے آپ سمندر میں جہاز، کشتیوں کوبھی گن سکتے ہیں اور باغ میں جانوروں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

شکریہ میں نے ہنس کر کہاتھا۔
لمبی پرواز کے بعد مجھے باتھ روم جانے کی سخت حاجت ہورہی تھی اور میں یہ چاہ رہاتھا کہ جلد از جلد گرما گرم پانی سے نہا دھو کر میٹنگ کے لئے تیار ہوجاؤں۔ میٹنگ چار بجے شہر میں واقع ہمارے مقامی آفس میں ہونی تھی جس کی تھوڑی سی تیاری بھی کرنی تھی۔

وہ میرے ساتھ ساتھ لفٹ میں پھر کمرے تک آیا۔ پورٹر ہمارے پہنچنے سے قبل پہنچ کر میرے سوٹ کیس کو کمرے میں مناسب جگہ پر رکھ چکا تھا۔ اس نے ٹیلی ویژن آن کردیا۔ دراز کھول کر مجھے سیف دکھایا، الماری سے جانماز نکال کر یہ بھی بتایا کہ قبلہ کس طرف ہے ساتھ ہی ہوٹل کی مزید سہولتوں کی تفصیلات بتاہی رہا تھا کہ میں نے اس سے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے اندازہ ہے سہولتوں کا۔ مجھے اب ٹوائلٹ جانا ہے کوئی ضرورت ہوگی تو میں فون کرکے آپ کو بلالوں گا، بہت بہت شکریہ آپ کا ہوٹل بہت اچھا ہے۔

ضرور ضرور، حاضر حاضر ہمارا کام ہی خدمت کرنا ہے اور ہاں ہمارا ٹوائلٹ ٹاپ کلاس ہے دنیا کا نمبر ون ٹوائلٹ۔ ٹب بھی ہے شاور بھی ہے اور کموڈ ہے بالکل نئے ڈیزائن کا اسلامی کموڈ۔ بہترین ہیئر ڈرائر اور سارے باڈی لوشن ہیں ٹوتھ پیسٹ اور بہترین الیکٹرک، مسواک برش کے ساتھ۔

مجھے پتہ ہے اسلامی کموڈ کا۔ اب تو کافی ہوٹلوں میں ہوتا ہے یہ۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے اس باتونی آدمی کو جواب دیا۔

ہیں سر نہیں یہ کچھ اور ہے۔ آئیے آئیے میں دکھاتا ہوں مکمل طور پر کمپیوٹر ائزڈ، آٹو میٹک کیمرہ لگا ہوا ہے، اسکرین موجود ہے سب کچھ خود بخود ہوتا ہے صرف آپ کو بٹن دبانا ہے مکمل طہارت ہے مکمل طہارت، یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے باتھ روم میں داخل ہوگیا تھا۔

میری حاجت کافی بڑھ گئی تھی اور میں چاہ رہاتھا کہ یہ آدمی جلد ازجلد میری جان چھوڑے میں بھی باتھ روم میں داخل ہوا کہ اس سے کہوں کہ وہ اب جائے۔
میرے داخل ہوتے ہی اس نے مجھے عربی اور انگلش میں لکھے دو ہدایت نامے پکڑادیئے تھے جو پلاسٹک کارڈ پر چھپے ہوئے تھے۔

کموڈ کی بنی ہوئی تصویر پر صاف نظر آرہی تھی۔ میں نے جلدی سے وہ کارڈ لیا اور اسے کہا کہ وہ جائے جب ضرورت ہوگی تو میں اسے خود ہی بلالوں گا، میں نے اسے تقریباً دھکا دے کر ٹوائلٹ سے نکالا اور پھر جلدی سے کموڈ پر بیٹھ گیا تھا۔

کموڈ پر بیٹھنے کے بعد میں نے اس ہدایت نامے پر نظر ڈالی تو پتہ لگا کہ وہ کموڈ کو استعمال کرنے کا ہدایت نامہ تھا۔ کموڈ کے سیدھے ہاتھ ایک گھومنے والے ریک پر اسکرین اور اس کے اوپر کچھ بٹن لگے ہوئے تھے میں نے اس ریک کوہدایت کے مطابق سامنے کرکے آف اور آن کا بٹن دبایا تو اسکرین روشن ہوگیا جس پر رنگین تصویر نظر آرہی تھی۔ غور سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ میں خود اپنے مقعد کا معائنہ کررہا ہوں۔

اپنے مقعد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کچھ سال قبل مجھے پاخانے میں خون آنے کی شکایت ہوئی تو ایک سرجن کے پاس دکھانے گیا۔ اس نے پروکٹو اسکوپ نام کا ایک آلہ لگا کر معقد کا تفصیلی معائنہ کیا تھا۔ جس کے بعد بواسیر کی تشخیص ہوئی تھی مگریہ بہت معمولی درجے کی بواسیر تھی۔ اس نے ہی بتایا تھا کہ میرے ہاضمے میں مزید کوئی خرابی نہیں ہے خون بواسیر کی وجہ سے آیا ہے جو صحیح ہو جائے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ پاخانے میں خون کے آنے پر معائنہ کرانا بہت ضروری ہے جو میں نے کرا لیا تھا اور شکر ہے کہ ایک مرہم لگانے سے بواسیر صحیح بھی ہوگیا مگر اپنے اس نظام کا بنفس نفیس معائنہ کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اسکول کے زمانے میں ایک شریر لڑکے کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی جیب میں ایک آئینہ رکھتا ہے اور ضرورتمندوں کو مہیا کرتا ہے تاکہ وہ خود اپنے مقعد کا معائنہ کرسکیں۔ ہم سب لوگ اس بات پر بہت ہنستے تھے مگر وہ اسکول کی باتیں تھیں۔ پر اب ٹیکنالوجی یہاں تک پہنچ گئی ہے اس کا اندازہ اب ہوا تھا مجھے۔

اسکرین کے ساتھ ہی بٹن لگے ہوئے تھے جن کے دبانے سے ٹھنڈا اور گرم پانی دھار یا پھوار کی صورت میں نکلتا تھا۔ ایک لیور تھا جو چاروں طرف گھومتا تھا جس کے گھمانے سے دھار اور پھوار بھی مختلف جانب حرکت کرتی تھیں۔

ایک اور بٹن کے د بانے سے ایک بہت ہی ملائم برش نکل آیا جسے گھما پھرا کرصفائی کی جاسکتی تھی یہ بھی لکھا ہواتھا کہ ہر صفائی کے بعد یہ برش خودبخود پانی میں گرجاتا ہے۔ سرخ رنگ کا بٹن آخر میں تھا جس کو دبانے سے تیز گرم ہوا خارج ہوتی تھی اور کسی قسم کے ٹشو پیپر کے بغیر پانی غائب ہوجاتا اور سب کچھ خشک ہوجاتا تھا۔

میں نے یہ سب کچھ استعمال کیا اور مجھے پتہ لگا کہ طہارت کموڈ کیا ہوتا ہے۔ ہوٹل والوں نے عربی مسلمانوں کے لئے ہرطرح کی سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں حیران بھی ہوا اور ساتھ ہی اس ایجاد سے متاثربھی۔ یقینا یہ جاپان یا کوریا کا کام ہوگا وہی لوگ اس طرح کی مارکیٹوں کا استعمال جانتے ہیں۔

بازار میں جاپان کی بنائی ہوئی اس طرح کی چیزیں خوب مل رہی تھیں مثلاً اذان دینے والی گھڑی، قبلہ کا رخ دکھانے والی جائے نماز، قرآن کے مختلف آیتوں کی تشریح کرنے والے کمپیوٹر کے پروگرام، مکّہ مدینہ کی تصویر والی تسبیح اور اس طرح کے اور بہت ساری چیزوں سے مکہ مدینہ کی دوکانیں بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ یقینا جاپان، کوریا، چین اور ہانگ کانگ اس طرح کی چیزیں بناکر کروڑوں ڈالر کا فارن ایکسچینج کمارہے تھے۔

نہانے کے بعد جلدی جلدی میں تیار ہوکر نیچے آیا کہ کھانا کھاکر میٹنگ کے لئے پہنچوں۔ لفٹ سے باہر آتے ہی وہ آگیا۔

سلام علیکم سلام وعلیکم کھانا کھائیں گے۔ ضرور ضرور۔ وہ مجھے اشارے سے ریسٹورنٹ کی طرف لے گیا تھا۔

سارا کھانا حلال ہے مرغی، بکرا، گائے، بھیڑ سب کچھ بالکل اسلامی طریقے سے حلال کروایا جاتا ہے ہمارے ہوٹل میں۔ صبح ناشتے میں لارڈ استعمال نہیں کرتے ہیں ہم لوگ۔ سب کچھ زیتون کے تیل میں پکایا جاتاہے۔ سور کے گوشت کو پکانے کے لئے الگ برتن ہے اور بالکل الگ باورچی خانہ ہے اس نے تفصیل سے ہوٹل میں مسلمانوں کے لئے کھانے پکانے کے انتظام کے بارے میں بتایا۔ مسلمانوں کا کھانا بالکل مختلف باورچی خانے میں مسلمان باورچی پکاتے ہیں۔ میں اس انتظام پر بھی حیران ہی ہوا تھا۔

کھانا کھاکر میں باہر آیا تو ہوٹل کے باہر ٹیکسی تیار کھڑی تھی۔ وہ ٹیکسی کے ساتھ ہی کھڑا میرا انتظار کررہا تھا۔ میں نے ٹیکسی والے کو میٹنگ کی جگہ کا پتہ بتایا۔ اس کے انداز سے مجھے پتہ لگا تھا کہ وہ پتے کو سمجھ گیا ہے۔

ٹیکسی کے چلتے ہی ٹیکسی میں لگے ہوئے چھوٹے سے ٹی وی کے اسکرین پر باتصویر تلاوت شروع ہوگئی۔ مجھے سمجھ میں آگیا کہ یہ انتظام بھی ہوٹل کی جانب سے کیا گیا ہوگا تاکہ مسلمانوں کی اس ضرورت کو بھی پورا کیا جائے۔ دیکھا جائے تو میں ہوٹل کے انتظامات سے مکمل طور پر مرعوب ہوگیا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2