ایک سچے انقلابی کی کتھا


جانثار خان مظلوم نے ہوش سنبھالا تو انہیں زندگی میں کچھ کمی کمی سی محسوس ہوئی۔ ان کو یہ جان کر شدید احساس کمتری ہوا کہ ہر چھوٹے بڑے کا کم از کم ایک ظالم طاغوتی دشمن ضرور موجود ہے جس کے خلاف وہ جد و جہد کر رہا ہے، لیکن ان کے پاس ایسا کوئی دشمن نہیں تھا۔ حالات پر کافی غور کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ان کے ساتھ پلے گروپ میں پڑھنے والا ہر وہ بچہ ہے جو انہیں اپنا لنچ دینے سے انکار کرتا ہے۔

سکول کے راستے میں وین میں وہ اس معاملے پر خوب سر کھپاتے کہ کیسے ان دشمنوں کو سیدھے راستے پر لایا جائے۔ بظاہر نہایت معصوم اور پیارے دکھنے والے ان شقی القلب بچوں کا یہ مطالبہ نہایت ہی ناقابل قبول تھا کہ جانثار خان مظلوم انہیں بھی اپنا لنچ کھلائیں۔ اپنا لنچ تو وہ غور و فکر کے دوران سکول کے راستے میں اپنی وین میں ہی کھا جاتے تھے، تو ان پیٹو بچوں کا اپنا لنچ کھلانے کا مطالبہ کیسے پورا کرتے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے سے انکار کرنے کے اس رویے نے جانثار خان مظلوم کی آنے والی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے۔

وہ درجہ دوئم تک پہنچے تو ان کو اپنی گزشتہ سوچ پر ندامت ہوئی کہ وہ کیوں ان معصوم بچوں کے لنچ نہ دینے پر ان کو دشمن سمجھتے تھے، حالانکہ وہ ان کی غیرموجودگی میں ان کو بتائے بغیر ان کا لنچ ان کے بیگ سے نکال کر کھا سکتے تھے۔ اب وہ اصل دشمن کو پہچان چکے تھے۔ ان کو علم ہو چکا تھا ملت کی سب سے بڑی دشمن ان کی استانی صاحبہ ہیں جو معصوم بچوں پر محض اس لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیتی ہیں کہ انہوں نے ہوم ورک نہیں کیا ہے۔

جانثار خان مظلوم نے اس استعماری جابر کا خوب مقابلہ کیا اور وہ صبح سویرے دوسرے بچوں کی کاپیاں ان کے بستے سے نکال کر ان کا ہوم ورک کاپی کر لیتے تھے، اور پھر انہیں سزا دینے کی خاطر ان کی کاپی کو چھپا دیتے تھے۔ اب ظالم استعمار کی ایجنٹ استانی کے ظلم کا نشانہ وہ ظالم بچوں ہی بنتے تھے جو کہ اپنا ہوم ورک جانثار خان مظلوم سے شیئر کرنے سے انکاری تھے۔

ہائی سکول میں پہنچ کر جانثار خان مظلوم نے ان لڑکوں کو عوام دشمن عناصر کے طور پر شناخت کر لیا جو کہ ان کو محلے کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنانے کو تیار نہیں تھے۔ کوئی دعوی کرتا تھا کہ گیند اور بلا اس کا ہے، اس لیے وہ کپتان بننے کا اہل ہے، کوئی کہتا تھا کہ وہ سب سے بہترین بلے باز ہے، اس لیے کپتانی پر اسی کا حق ہے۔ کسی کا گمان تھا کہ وہ سب سے بہتر فاسٹ باؤلر ہے اسی لیے کپتان تو بس وہی بن سکتا ہے۔ حالانکہ کپتان کا کام ہوتا ہے کہ اپنی ساری ٹیم کو عقل سے کام لیتے ہوئے دشمن ٹیم سے لڑائے اور سب سے زیادہ عقل مند ظاہر ہے کہ جانثار خان مظلوم ہی تھے۔

یہ ٹھیک ہے کہ وہ بیٹ بال خریدنے کو فضول خرچی گردانتے تھے، لیکن ان کی بیٹنگ کافی اچھی تھی۔ تقریباً دس کی ایوریج سے وہ بیٹنگ کیا کرتے تھے اور دلیر اتنے تھے کہ ہر اننگز کو اوپن کرنا چاہتے تھے۔ باؤلنگ میں بھی وہ بہت سے نوجوانوں کے فیورٹ تھے۔ مقابل ٹیموں کا اصرار یہی ہوا کرتا تھا کہ جانثار خان مظلوم کو بال دی جائے۔

سکول سے نکل کر وہ کالج پہنچے تو چند ماہ گزارنے کے بعد ہی ان کو علم ہو گیا کہ ان کے بار بار فیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں میرٹ کی حکمرانی نہیں ہے۔ یہاں سسٹم خراب ہے جس کی وجہ سے اصل ٹیلنٹ ابھر نہیں پاتا ہے اور کتابی کیڑے ہی امتحان میں پاس ہو سکتے ہیں۔ ان زندہ دل نوجوانوں کے لیے یہ سسٹم مناسب نہیں ہے جو کہ اپنی جوانی کو کلاس روم میں ضائع کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کو یہ جان کر صدمہ ہوا کہ ملک میں ہر طرف رشوت، اقربا پروری اور سفارش کا دور دورہ ہے۔

وہ اس خرابی کا ذمے دار افسر شاہی کو قرار دے کر اس کے شدید دشمن بن گئے۔ کالج میں نہ جانے ان کو کتنا عرصہ رہنا پڑتا مگر خوش قسمتی سے ان کے بزرگوں نے سفارش کر کے امتحان میں اپنے جاننے والے ایک ایسے شخص کی ڈیوٹی لگوا دی جو کہ میرٹ کی قدر کرتا تھا۔ وہ نیک انصاف پسند آدمی محض چند ہزار روپے لے کر ان کی جگہ دوسرے شخص سے پرچہ دلوانے میں راضی ہو گیا۔

ڈگری پا کر ان کو اپنے شایان شان نوکری نہیں مل پائی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی کم از کم تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہانہ ہو اور کمپنی کی طرف سے ان کو گاڑی ملے۔ بدقسمتی سے حکومتی کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی میرٹ باقی نہیں رہا اور یہ جوہر قابل گھر بیٹھا ضائع ہوتا رہا اور ملکی حالات پر اپنا دل جلاتا رہا۔ مگر سچ یہی ہے کہ سونا تپ تپ کر ہی کندن بنتا ہے۔ سو خوب جلتے جلتے انہوں نے دو سال کی بے روزگاری کاٹی اور ہر شام ٹاک شو دیکھتے اور بدکردار ملک دشمن سیاستدانوں کو خوب برا بھلا کہتے جو کہ ملک کو تباہ کر رہے تھے۔

اب انہیں علم ہو چکا تھا کہ ان کا اصل دشمن یہ سیاستدان ہی ہیں۔ اب ٹاک شو دیکھ دیکھ کر یہ خوب پختہ سیاسی فکر کے مالک ہو چکے تھے۔ ٹاک شو کے علاوہ وہ صرف موسیقی کے چینل ہی دیکھتے تھے اس لیے موسیقی کا اچھا ذوق بھی پیدا ہو گیا مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں اب میوزک کنسرٹ ہونے بند ہو چکے تھے۔ ناچار وہ شوق کو دل ہی دل میں پالتے رہے اور ملک دشمنوں کے بارے میں سوچتے رہے۔

ایسے میں شہر میں ایک نئے لیڈر کا جلسہ ہوا۔ جانثار خان مظلوم ٹاک شو میں اس لیڈر کی تقاریر سن سن کر اس کے کچھ کچھ حامی ہو چکے تھے مگر جب جلسے میں انہوں نے تقریر کے ساتھ لائیو موسیقی بھی دیکھی، تو ان کا دل بس وہیں اٹک گیا۔ وہ یہ بات خوب جان گئے تھے کہ ملک کو صرف ایک یہی شخص ہی سنبھال سکتا تھا۔ باقی سب ملک کے دشمن تھے۔ بس یہی ایک شخص ملک سے سچا اور مخلص تھا۔ اس کے کردار کی گواہی جانثار خان مظلوم کا دل دیتا تھا۔

ملک کے دشمن اسے جلد باز قرار دیتے تھے، مگر جانثار خان مظلوم جانتا تھا کہ یہ جلد بازی نہیں بلکہ برق رفتاری ہے۔ بلکہ برق تو ایک ناقص شے ہے کہ ایک جگہ پر ایک بار ہی گرتی ہے، تو یہ ایک ہی جگہ پر تاحیات گرنے والی بجلی تھی۔ جانثار خان مظلوم جان گئے کہ دشمن ملک کو ترقی سے روکنا چاہتے ہیں اور کچھ بنانا نہیں چاہتے، اس لیے وہ جلسے جلوسوں اور ہیجان خیزی کے ذریعے قوم کو جگانے سے خوف کھا رہے ہیں۔ ملک کو ترقی دینے کا ایک ہی طریقہ تھا، اور وہ تھا کہ کسی بھی طرح اقتدار جانثار خان مظلوم کے لیڈر کو دے دیا جائے۔

جو بھی اس لیڈر کی کسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتا، وہ ملک کا دشمن تھا۔ جو بھی اداروں کو احترام دینے کی بات کرتا، وہی ملک کو تباہ کرنے والوں کا حامی تھا۔ ملک ایک ہی صورت میں ترقی پا سکتا تھا۔ اگر ملک میں جانثار خان مظلوم کی مرضی کے مطابق ان کا لیڈر ایک منتخب جمہوری حکمران بن جائے، خواہ اس کے لیے مارشل لا ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔

ٹاک شو دیکھ دیکھ کر جانثار خان مظلوم کی زبان خوب رواں ہو چکی تھی اور ان کا دماغ خود سے کوئی بات سوچنے میں وقت ضائع کرنے کا عادی نہیں رہا تھا۔ سب حقائق ان کو خود بخود ہی معلوم ہو جاتے تھے۔ اور بچپن سے اب تک دشمن شناخت کر کر کے ان کو ملک، قوم اور معاشرے کے دشمنوں کو شناخت کرنے میں دقت نہیں ہوتی تھی۔ جیسے ہی کوئی شخص ان سے اختلاف کرتا تھا، یا ان کے لیڈر کی بجائے کسی دوسرے لیڈر کی حمایت کرتا تھا، وہ سمجھ جاتے تھے کہ یہ بکا ہوا غدار اور نہایت احمق شخص ہے جسے محض ٹاک شو والی شیریں کلامی کے زور پر ہی اپنا مزید مخالف بنایا جا سکتا ہے۔ اپنے لیڈر کی طرح جانثار خان مظلوم بھی اچھے وقت کا انتظار کرنے لگے مگر بدقسمتی سے بار بار کی اپیل کے باوجود اسی ایمپائر نے ان کو فضا میں بلند کر کے آؤٹ کرنے والی وہ انگلی نہیں دکھائی جس کے وہ منتظر تھے، ہاں باقی تمام دنیا ان پر انگلیاں اٹھاتی رہی۔
اب وہ حیران ہیں کہ کاہے کو شہر کا شہر ہی ان کا دشمن ہوا پھرتا ہے۔
May 3, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments