الیکشن 2018,کچھ باتیں اورکچھ حقائق


الیکشن ہونے میں اب صرف ایک ماہ رہ گیا ہے۔ سنا ہے ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش نہیں کیا۔ اڑتی اڑتی خبر یہ ہے کہ اسی ہفتے کے اختتام پر، پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کا منشور پیش کریں گے۔ منشور آئے یا نہ آئے پی ٹی آئی اور پی پی پی والے دعوے بڑے بڑے کررہے ہیں۔ جیسے کے پی ٹی آئی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پانچ سالوں میں وہ ایک کڑور نوکریاں دیں گے، ویسے پانچ سالوں میں تو ایک کروڑ رہوڑیاں بھی بانٹنا کافی کٹھن کام ہے۔ آصف زرداری نے تو کمال وعدہ کیا ہے کہ پاکستان کے ہر گھر سے ایک فرد کو نوکری دی جائے گی، بڑی بات ہے کہ ہر گھر سے اب ایک بابو نکلے گا۔ بھٹو تو ویسے ہی ہر گھر سے نکل گیا ہے، اب ہر گھر سے بابو کا نکلنا ایک دلچسپ افسانوی خیال ہے۔

پی ٹی آئی اگر اقتدار میں آتی ہے تو اسے پانچ سالوں میں ہر ایک منٹ میں چارنوکریاں تقسیم کرنی ہوگی، اسی طرح پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو اسے ہر منٹ میں 12 نوکریاں پیدا کرنی ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا یہ وعدہ کتنا پریکٹیکل ہے۔ یہ وعدہ افسانوی خیال جیسا ہے۔ ابھی تو جلسے جلوسوں میں سیاستدانوں نے بڑی بڑی باتیں اور وعدے کرنے ہیں۔ آصف علی زرداری کو سیاسی مبصرین اور انتخابی سیاست کے ماہرین ابھی سے کنگ میکر کہنا شروع ہو گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق نئی حکومت میں وہ بہت بڑا حصہ لے جائیں گے۔ مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی انتخابات کے بعد یا تو پی ٹی آئی یا پھر ن کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی۔

آصف علی زرداری وعدے کرنے کے ماہر ہیں، لگتا تو یہی ہے کہ وہ پاکستان کے ہر گھر سے ایک بابو تو ضرور نکالیں گے۔ یاد رکھیں الیکشن سے پہلے سیاستدان وعدے کرتے ہیں، جو من میں آتا ہے لٹاتے چلے جاتے ہیں اور جب الیکشن ہو جائیں تو کہتے ہیں کونسے وعدے، کہاں کے وعدے؟ اس لئے عوام ابھی تو کم از کم وعدوں ر دل خوش کریں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ٹکٹم ٹکٹا کا کھیل جاری ہے، کسی کو ٹکٹ مل گئی ہے تو کوئی ابھی بھی لائن میں لگا ہے اور کسی کو ٹکٹ دے کر اس سے ٹکٹ چھینی جارہی ہے۔ سکندر بوسن کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا اور پھر جب ورکروں نے احتجاج کیا تو ٹکٹ چھین لیا گیا۔

اچھی بات یہ ہورہی ہے کہ نوجوان روایتی سیاستدانوں سے سوالات پوچھ رہے ہیں؟ ان سیاستدانوں کو جن کو جواب دینے کی عادت نہیں تھی، اب انہیں جواب دینا پڑ رہا ہے۔ جمال لغاری کا قصہ تو سب کو یاد ہے جس سے حلقے میں ووٹر نے سوال پوچھا کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟ تو جواب میں جو انہوں نے فرمایا وہ سوشل میڈیا پرویڈیو کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ اس مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ نوجوان ووٹ ڈالیں گے۔ دو کروڑ نواجوانوں میں ڈیڈھ کروڑ ے بھی ووٹ کا درست استعمال کیا تو ایک بہت اچھی تعمیری تبدیلی آسکتی ہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جو ووٹ پڑے تھے اس مرتبہ پچاس فیصد ووٹ بڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ نوجوان پچیس جولائی کو نکل پڑے۔

ٹکٹوں کے مسئلے پر کچھ سیاسدانوں کے درمیان لڑائیاں چل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک بھی رہے ہیں اور بلیک بھی ہورہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان زور کا ٹاکرا پڑا ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ وہ اس بندے کے بارے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے جو گیم میں ہی نہیں ہے۔ ان کا اشارہ جہانگیر ترین کی طرف ہے۔ جب سے پی ٹی آئی میں الیکٹیبلز کا میلہ سجا ہے اور اسٹیبشلمنٹ کا توانائی کا ٹیکہ لگا ہے، پی ٹی آئی میں خوب ٹکٹم ٹکٹا ہورہی ہے۔ ہر دوسرا انسان پی ٹی آئی کا ٹکٹ کیوں لینا چاہتا ہے، اس پر میڈیا اور مبصرین خاموش ہیں؟ جب سب کو پی ٹی آئی نظرآرہی ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی پی ٹی آئی نظر آرہی ہے؟

چوہدری نثار کا بھی عجب قصہ ہے، ایک دن وہ شریف فیملی پر چیختے ہیں دوسرے دن ان کی تعریفیں کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی ٹکٹ کے محتاج نہیں، کبھی کوئی اور بیان داغ دیتے ہیں، مسلم لیگ ن نے اب ان کے مقابلے میں دو امیدوار کھڑے کر دیے ہیں۔ ایک بیچارے انجینئیر قمرالاسلام کو تو نیب نے دھڑ بھی لیا ہے، اب یہ اتفاق ہے یا کوئی سازش ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر جناب شہباز شریف صاحب نے کراچی سے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے، اگلے ہفتے سے عمران خان بھی کراچی سے انتخابی مہم شروع کرنے جارہے ہیں۔

کراچی کی بائیس سیٹوں کے لئے اب سب کے لئے کھلا میدان ہے۔ وہ مسلم لیگ ن جو کراچی کو کبھی گھاس نہیں ڈالتی تھی وہ بھی سرگرم ہے۔ کراچی میں جب سے ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم ہوئی ہے اور اس کا ووٹ بکھرا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ ایک دو سیٹیں یہاں سے نکال ہی لیں۔ اب تو سنا ہے ایم کیو ایم کا ایک نظریاتی گروپ بھی آگیا ہے۔ ادھر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ، قادری صاحب کی عوامی تحریک پاکستان الیکشن پراسز سے الگ تھلگ ہوں گی۔ وہ قادری صاحب جو جمہوری حکومت کو الٹانے کے لئے وقت دیتے تھے، وہ یورپ کے دورے پر جارہے ہیں۔ حکومتیں برطرف کرنے کا کاروبار کرنے والے قادری الیکشن سے روٹھ گئے ہیں۔ یہ تو تھی سیاسی صورتحال۔

اب جلسے جلوس ہوں گے، اس لئے سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکیورٹی کا خیال رکھیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے ملاں فضل اللہ افغانستان میں مارے گئے ہیں، اس لئے انتخابی مہم کے دوران ٹی ٹی پی دہشت گردانہ کارروائیاں کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی کے سیکیورٹی اداروں کو بھی دھیان دینا ہوگا۔ سیاستدانوں کو بھی اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ الیکشن کا عمل خیر و عافیت سے گزر جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).