سی پیک – افسانہ اورحقیقت


25جون 2018 کواسلام آباد کے سیرینا ہوٹل میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای)، فیڈریشن آف کالمنسٹ اور پاکستان میں چین کے سفارتخانے کے زیر اہتمام ”سی پیک۔ حقیقت اور افسانہ“کے زیر عنوان ایک انتہائی شاندار سیمینار کا انعقاد کیا گیاجو سی پیک کے بارے میں پھیلنے والی بہت سی افواہوں کے تناظر میں ایک انتہائی معلوماتی سیشن تھا۔ مقررین میں قائم مقام چینی سفیر لی جیان کے علاوہ نگران وزیر اطلاعات سید علی ظفر، سی پی این ای کے صدر عارف نظامی، ڈاکٹر عشرت حسین اور اکرام سہگل موجود تھے جنھوں نے نہ صرف سیمینار کے موضوع پرمدلل تقاریر کیں بلکہ سیمینار میں موجود پاکستان بھر سے آئے ہوئے کالم نگاروں کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔

اس موقع پر قائم مقام چینی سفیر کی جانب سے پیش کی گئی تفصیلی بریفنگ انتہائی اہم تھی۔ مجھے حیرانگی ہو رہی تھی کہ اسلام آباد کا چینی سفارتخانہ سی پیک کے حوالے سے ان معمولی خبروں اور افواہوں سے بھی آگاہ تھا جو عام طور پر غیر سنجیدگی کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پاکستان میں سی پیک پراجیکٹ پر چینی جیلوں میں قید افراد کے کام کرنے، سی پیک کے تحت پاکستان میں کوئلے کے ناقص پاور پلانٹ کی تعمیر، سی پیک منصوبہ جات میں بھاری سود پر پاکستان کو قرضوں کی فراہمی، سی پیک پاکستان کو قرضوں میں جکڑنے اور چین کا غلام بنانے کا ایک پھندا ہے، سی پیک کے ذریعے چین پاکستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کنٹرول کرے گا، سی پیک پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے، سی پیک میں مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے کوئی مواقع نہیں، اس سے عام پاکستانیوں کی زندگیوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، سی پیک میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ کہ سی پیک سے پاکستان کی صنعتی ترقی رُک جائے گی وغیرہ جیسے لایعنی، گمراہ کن مفروضوں اور فضول پراپیگنڈے کا چینی سفیر نے انتہائی مؤثر جواب دیا اور حاضرین کو بتایا کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے بلکہ اس منصوبے کے ذریعے نہ صرف چین بلکہ پاکستان کو بھی عظیم فوائد حاصل ہوں گے۔

سی پیک کے تحت متعدد منصوبوں میں چین پاکستان کی فراخدلی سے امداد کر رہا ہے اور پاکستان پرقرضوں کی واپسی کے لئے کسی طرح کا نہ کوئی پریشر ہے اور نہ ہی کوئی سخت شرائط ہیں بلکہ زیادہ تر منصوبوں میں سود کے بغیر قرضے فراہم کیئے جا رہے ہیں۔ سر دست سی پیک کے تحت پاکستان کو چھ بلین ڈالر کے قرضے فراہم کیے گئے ہیں اور پاکستان نے 2024 تک چین کو 7۔ 4بلین ڈالر ادا کرنے ہیں جو بین الاقوامی اعتبار سے انتہائی کم شرح سودپر ہیں۔ سی پیک پر خرچ ہونے والے کل اخراجات کی محض دس فیصد رقم قرض کے ذمرے میں آتی ہے جبکہ بیالیس فیصد رقم بہت سے دیگر مالی معاونت فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے فراہم کی جائے گی اور اٹھارہ فیصد رقم پیرس کلب فراہم کرے گا، انفراسٹرکچر کے مختلف منصوبوں پر خرچ ہونے والی باقی ماندہ رقم بعض صورتوں میں یکطرفہ اور بعض میں دوطرفہ فوائد کی صورت میں چین کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔

یوں چین پر بلاوجہ شکوک و شبہات کا اظہار سراسر بدنیتی پر مبنی ہے جو سی پیک کے خلاف نہ صرف منفی پراپیگنڈے کے عمل کا حصہ ہے بلکہ پورے پراجیکٹ کو مشکوک بنانے، چینیوں کے بارے میں نفرت پھیلانے اور پراجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کی ان سازشوں کا حصہ ہے جو پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن اپنے مقامی آلہ کاروں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ اس موقع پر چینی سفیر نے سی پیک کے تحت اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چلانے کے عزم کا بھی اظہار کیا جس کی بدولت سفر کا وقت اتنا کم ہو جائے گا کہ صبح اسلام آباد میں ناشتہ کرنے والے مسافر اپنا لنچ کراچی میں کر سکیں گے۔ ہمیں چین جیسے عظیم دوست پر اپنا اعتماد برقرار رکھتے ہوئے ان بیرونی سازشوں کو ناکام بنانا ہو گا۔ سی پیک کے متعلق ان افواہوں، جھوٹ اور بڑھتے ہوئے منفی پراپیگنڈے کے پس منظر میں اس کانفرنس کی اہمیت اور زیادہ ہو گئی تھی۔ سی پیک کے بارے میں من گھڑت مفروضوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنے مقاصد کے حوالے سے یہ ایک کامیاب سیمینار تھا۔

بحثیت قوم ہمیں سی پیک کے بارے میں افسانوں اور حقائق میں توازن قائم رکھتے ہوئے افسانے پھیلانے والے عناصر کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ہم پاکستا نیوں کا المیہ یہ ہے کہ تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث ہمارے معاشرے میں منفی رجحانات غالب ہیں اور ہماری عوام کی اکثریت حقائق کا کھوج لگانے اور انھیں گہرائی میں جا کر سمجھنے کی بجائے عام طور پر افواہوں پر یقین کرتے ہوئے اپنی رائے بنا لیتے ہیں جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے اور یہ رجحان ہماری سماجی، جمہوری اور اقتصادی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ رابطہ سازی اور تعاون کے ذریعے خوشحالی کے نعرے کے تحت عالمی تجارت کا سرخیل بننے کے لئے چین سی پیک جیسے منصوبے کو نافذ کر رہا ہے اور ہمیں اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کی بجائے چین کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو فائدہ حاصل ہو گا۔ اس پورے پراجیکٹ کا نام ون بیلٹ ون روڈ(اوبور)ہے جس کا سی پیک محض ایک اہم حصہ ہے۔

اوبور اور سی پیک چینی صدر جن پنگ کی اولی العزمی کا مظہر ہے۔ تاہم، یہ زیادہ دانشمندانہ بات ہو گی کہ اوبور اور سی پیک کے مقاصد اور امکانات کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔ اوبور ورلڈ آرڈر کی تبدیلی کے لئے چین کی عظیم جیو پالیٹیکل سٹریٹجی(Geo Political strategy) کا عکاس ہے، عظیم امنگوں کاحامل ایک ایسا منصوبہ جس کے تحت چین کے لوگ یورپ، ایشیا اور افریقہ سے نہ صرف زمینی بلکہ سمندری راستے سے بھی منسلک ہو جائیں گے۔ اس کا بنیادی مقصد دنیا کی تجارت و کامرس کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا مقصد نئے ترقی پانے والے زمینی اورسمندری راستوں پر چینی مصنوعات کی برآمدات کے سیلاب کو رسائی دینا ہے۔ اس عظیم منصوبے کا تیسرا مقصد چین کی پھیلتی ہوئی بڑی معیشت کے لئے سستے تیل اور گیس کے حصول کو ممکن بنانا ہے۔ یہ چہار جانب مکمل ہونے والے مندرجہ ذیل چھ روٹ ہیں جوآنے والے وقت میں ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے :

1۔ چائنہ۔ پاکستان کوریڈور، جو جنوب مغربی چین سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ 2۔ چین۔ منگولیا۔ روس کوریڈورجو شمالی چین سے مشرقی روس تک پھیلا ہوا ہے۔ 3۔ چین وسط ایشیاء۔ مغربی ایشیاء کوریڈورجو مغربی چین سے ترکی تک پھیلا ہوا ہے۔ 4۔ چین۔ جزیرہ نما انڈو چائنہ (Indochina Peninsula) کوریڈورجو جنوبی چین سے سنگا پور تک پھیلا ہوا ہے۔ 5۔ نیو یوریشین لینڈ بریج، جو مغربی چین سے مغربی روس تک پھیلی ہوئی ہے۔ 6۔ میری ٹائم سلک روڈ، جو سنگا پور کی چائنیز کوسٹ سے بحیرہ روم (Mediterranean) تک پھیلی ہوئی ہے۔

یہ تمام منصوبے مل کر اوبور کے تصور کو مکمل عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اس پورے منصوبے سے تقریبا ساٹھ ممالک چین سے منسلک ہو جائیں گے اور اس بھروسے کے بدلے میں چین ان علاقوں میں ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر، تجارت، کامرس اور دوطرفہ فائدے پر مبنی تعلقات کو فروغ دے گا۔ اوبور کے تحت سی پیک میں گوادر کو دو چند اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ بہ یک وقت سمندری اور زمینی سلک روٹ سے منسلک ہے۔ اس منصوبے کی بدولت چینی برآمدات کو اب بارہ ہزار کلومیٹر زائد سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ سی پیک اور اوبور نہ صرف تجارت اور کامرس میں بلکہ سماجی و سیاسی تناظر میں بھی ایک دوسرے کے مرہون منت ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں صنعتی اور کمرشل کامیابیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ناکافی انفراسٹرکچر اور بجلی کی قلت ہے۔ سی پیک کی بدولت ان دونوں پیچیدگیوں سے نجات مل جائے گی اور کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت کے فروغ میں پڑنے والی رکاوٹیں دور ہوں گی۔

چین اور پاکستان نے ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ آزادی کے بعد سی پیک پاکستان میں آنے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے اور اسی طرح چین کے لئے اوبور سفارتی اثر پھیلانے والا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کا آغاز چینیوں نے کیا ہے۔ ہمیں سی پیک سے فوائد سمیٹنے کے لئے اجتماعی قومی سوچ اپنانا ہو گی اور ایسی تمام افواہوں اور پراپیگنڈے کو رد کرنا ہو گا جو اس منصوبے کو متنازعہ بناتے ہیں۔ ہمیں ایک اور بات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ عالمی سیاست میں جتنا ہم چینیوں کے محتاج ہیں اتنا چین ہمارا محتاج نہیں۔ اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چین کے پاس بہت سے متبادل ذرائع ہیں لیکن ہمارے لئے آپشن محدود ہیں اس لئے پاکستان کے اچھے مستقبل کے لئے ہمیں تنگ نظری اور عاقبت نا اندیشی کی بجائے بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).