کچھ علاج اس کا بھی


ٹکٹیں ہیں، کتابیں ہیں، انتخابات ہیں، تحریکیں ہیں، عدالتیں ہیں، نگران حکومتیں ہیں، الیکشن کمیشن ہے، احتساب ہے، صف بندیاں ہیں، مذہب ہے، قام پرستی ہے، حب الوطنی ہے، مباحثے ہیں، دلیلیں ہیں، تاویلیں ہیں، جلسے ہیں، جلوس ہیں، تبدیلی ہے، ترقی ہے، رابطے ہیں، الزامات ہیں، فیسبوک ہے اور اکیلے ہم ہیں۔ بندہ کس کس پر لکھے؟

کوئی ایسا گھمسان کا رن نہیں پڑا لیکن یار دوست کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ پڑا ہی ہوگا۔ نوشہرہ میں ویسے عوام پرسکون ہیں اور سیاستدانوں کی دوڑیں دیدنی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیاست معاشرے کا انعکاس ہے۔ 2013 میں جب سارے موسمی کبوتر تحریک انصاف کی چھتری پر آ بیٹھے تو خاکسار پر یہ راز مکمل طور پر آشکار ہوا کہ سیاست کے ذریعے اس ملک میں تبدیلی آنے سے رہی۔ ہمارے ایوانوں تک جو لوگ رسائی حاصل کرتے ہیں وہ آسمان سے تو اترنے سے رہے۔ یہ لوگ اسی معاشرے سے ہی فراہم ہوں گے۔ اب اگر معاشرہ حق اور سچ کے اصولوں پر گامزن ہے تو لازماً منتخب نمائندوں میں بھی یہی خصوصیات ہوں گی۔ لیکن اگر سارا معاشرہ جھوٹ اور فریب پر استوار ہے تو جھوٹے، فریبی اور دھوکے باز ہی الیکشن لڑیں گے اور انہی میں سے کچھ جیتیں گے کچھ ہاریں گے۔

تبدیلی پھر کیسے آئے؟ یہ عمران خان نہیں لا سکتا پر اس جیسا ایک بندہ ضرور لا سکتا ہے۔ ایک ایسا بندہ جو عمران جیسی کرشماتی شخصیت کا حامل ہو، لوگ اس سے دل و جان سے پیار کریں، اس کی بات سنیں، اس کا یقین کریں، شوکت خانم جیسا کوئی کارنامہ اس کے سر ہو، عمران جتنی توانائی رکھتا ہو۔ یہ سب باتیں ہوں لیکن اختیار اور اقتدار کی بھوک نہ ہو۔ اپنی ساری کی ساری توانائی عوام کی تربیت پر لگائے۔ شعور اور آگہی پیدا کرے۔ عوام کے درمیان رہ کر شاد ہو۔ جس اخلاقی دیوالیہ پن کے ہم شکار ہیں اس کا علاج ضروری ہے۔ اس کا علاج ہو تو عوام خود ہی ڈھنگ کے بندے ڈھونڈ نکالیں گے حکمرانی کے لئے

عوام میں شعور پیدا ہو تو انہیں تعلیم کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہو۔ معزرت کے ساتھ ایک ذاتی بات عرض کروں۔ 2013 انتخابات کے فوراً بعد خاکسار امریکہ چلا گیا۔ اگر چہ دل مان کر نہیں دے رہا تھا لیکن ارادہ تھا کہ بس وہی رہا جائے۔ یہ پاکستان سے باہر میرا پہلا سفر تھا۔ وہاں جا کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ کون سی دنیا ہے؟ سب کچھ ایک مربوط نظام کے تحت۔ زندگی اتنی بھی آسان ہو سکتی ہے۔ اپنے اندر کے جوہر کو پا لینا اور اسے جِلا بخشنا اتنا سہل۔ آزادی اور حوصلہ افزائی۔ انسان کی بہترین صلاحیتیں واقعی آزادئی عمل کی فضاء میں پوری طرح بروئے کار آتی ہیں۔ وہی پاکستانی جو ہمارے ہاں بے کار پرزے تصورکیے جاتے ہیں، کتنی خوش سلیقگی سے زندگی گزار رہے تھے۔

یار دوستوں نے ادھر ہی بس جانے کے مشورے دیے۔ مواقع بے شمار۔ خاکسار چند مہینے گزار کر واپس آگیا۔ ایک سال بعد دوبارہ جانے کا موقع ملا۔ دونوں بار درجنوں درسگاہیں دیکھیں۔ وقت ملتا تو کسی یونیورسٹی میں گھس جاتا۔ ایک دو جگہ اپنا پس منظر بیان کیا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب یونیورسٹی انتظامیہ لیکچر کے لئے بلا لیتی۔ بے اختیار اپنا وطن یاد آجاتا کہ کوئی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا۔ ہر گزرتے لمحے یہ یقین پختہ ہوتا جاتا کہ تعلیم ہی ہمیں مسائل کے گرداب سے نکال سکتی ہے۔

پچھلے آرٹیکل میں بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد یعنی لگ بھگ ساڑھے بارہ کروڑ لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں۔ ان میں قریب قریب 6 کروڑ پندرہ سال سے کم عمر۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدھ امیدوار کو یہ پتہ ہو تو ہو باقی سارے اس حقیقت سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے اس ملک کے ان گنت مسائل سے۔ بیس کروڑ کی آبادی میں کوئی بندہ خدا اٹھے اور تاریخ کے چوراہے پر خواب خرگوش کے مزے لیتی قوم کو بتائے کہ تعلیم، تعلیم اور تعلیم ہی اس قوم کو نجات دلا سکتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام کیا ہے؟ کوئی ہے بھی کہ نہیں۔

تین سال پہلے خاکسار نے ایک سکول کھولا۔ تین سال سے والدین کو یہ نقطہ سمجھانے کی کوشش میں ہوں کہ تعلیم کا گریڈز سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک بچہ اگر کسی مضمون میں بہتر کارکردگی نہیں دکھا رہا تو اس کو ربِ کائنات کی طرف سے کوئی اور صلاحیت ودیعت ہوئی ہوگی۔ اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ والدین مشکل سے مانتے ہیں۔ ان کا بیٹا بس فرسٹ آنا چاہیے، چاہے صریح جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ چند لمحوں کی خوشی اور احساسِ تفاخر۔ بھاڑ میں جائے صداقت اور دیانت۔ ہم نے حل یہ نکالا کہ طلباء کو پوزیشن دیتے ہی نہیں۔ والدین بچوں کے داخلے کے سلسلے میں سکول آتے ہیں تو ایک استفسار ضرور کرتے ہیں ’ امتحانی مرکز اپنا ہے؟ ‘ اس سوال کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ سکول بے ایمانی میں کتنی معاونت کی پوزیشن میں ہے؟

آپ پرائیویٹ سکولز کے امتحانی نتائج کا سروے کرکے دیکھ لیں۔ پرائمری کلاسز تو ایک طرف، میٹرک کے طالب علم ریاضی کا ایک سادہ سوال حل نہیں کر سکتے، اردو میں خود سے دو فقرے نہیں لکھ سکتے۔ ایک ہی کلاس میں آدھے سے زائد سٹوڈنٹس پہلی پوزیشن پر براجمان ہوتے ہیں، باقی جو بچتے ہیں ان کے لئے دوسری تیسری پوزیشن۔ بچے کو ایک ٹرافی تھما دو اور سارا سال مزے کرو کیونکہ والدین شاذ ہی کبھی سکول کا رخ کرتے ہیں۔ ایک ایک کلاس میں ستر ستر بچے، اساتذہ کی ماہانہ تنخوا دو سے تین ہزار روپے۔ سرکار کی طرف سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ غلطی سے اگر کبھی سکول آجائیں تو چائے پانی سے ہی راضی ہو جاتے ہیں۔

انتخابی مہم میں عوامی سطح پر تو کیا آپ کو ٹی وی چینلز پر تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی بحث مشکل سے ملتی ہے۔ طلال چوہدری اور فواد چوہدری ایسے کردار سرِ عام ایک دوسرے کو زلیل کرتے دکھائی دیں گے۔ بیس کروڑ عوام کی وقعت ان کے نزدیک بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے تعلیمی ایمرجنسی جیسے دلفریب نعرے سنے لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پانچ سال پہلے جن سکولز کی توسیع شروع کی گئی وہ تاحال مکمل نہ ہوسکی۔ ہاں اس دوران ایک کام ہوا کہ پی ٹی آئی ورکرز کو تھوڑا بہت مال بنانے کا موقع ضرور ملا۔

انتخابات جیسے تیسے مکمل ہوجائیں گے لیکن تبدیلی آنے سے رہی۔ تبدیلی کے لئے حالات سازگار ہیں لیکن اس کے لئے جس پیہم جدوجہد کی ضرورت ہے اس کا ابھی دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ فی الحال کھیتی کو خون کی کاشت کی مزید ضرورت ہے۔ ابھی سے اگلے رت کی فکر کرنی چاہیے۔ ان انتخابات کے نتیجے کے طور پر جو بھی حکومت بنے گی وہ مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے پائے گی، ابھی مزید اندھیرا پھیلے گا اور جب ظلمت کی شدت انتہا کو پہنچے گی تو طلوع ہوگا وہ سویرا جس کا انتظار ہے
رات جل اٹھتی ہے جب شدتِ ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).