یوسفی صاحب، بینک کی نوکری اور نئے نوٹوں کی گڈیاں


کہتے ہیں کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مشابہت سو فیصد نہیں ہوتی، کسی ایک صفت میں مشابہت پر بھی تشبیہ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، مثلاً مشتاق احمد یوسفی صاحب کے نام کے درمیان میں احمد آتا ہے، ہمارے نام کے درمیان میں بھی احمد آ تا ہے۔ وہ بھی بینک میں کام کرتے تھے، ہم بھی بینک میں تو ہوتے ہیں، بے شک بقول شخصے کام نہیں کرتے۔ اب اگر آپ کہیں کہ یہ دونوں صفات ہی نہیں ہیں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ مزاح نگار کو یوسفی صاحب شوریدہ سر قرار دیتے تھے، ہمیں بھی آپ یہی سمجھ لیں تو مشابہت خود سمجھ آ جائے گی۔

یوسفی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اردو کے متروک الفاظ استعمال کرنے میں ملکہ حاصل تھا اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں ملکہ تو کیا اردو کی کوئی باندی بھی حاصل نہیں۔ بہت پرانی بات ہے کسی اخبار میں مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کسی نے لکھا تھا کہ اردو تو باندیوں کی طرح ان کے آگے ہاتھ باندھےکھڑی ہوتی ہے، اس کے بعد سے ایسی اندھی باندیوں کی خواہش ختم ہو گئی۔ جیسے ایک سو تیس فٹ کی حورکا سن کر ہم نے تو کہہ دیا ہے کہ بھئی ہم سے تو نہ ہو پائے گا۔ لکھنا کیا شروع کیا تھا اور باندیاں ہمیں حوروں تک لے گئیں۔

بینک کی نوکری کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ بینک میں کام کرنے والے بہت امیر ہوتے ہیں۔ بارہا سمجھایا ہے کہ بینک کے کاؤنٹر پر جو روپوں کے بنڈل پڑے ہوتے ہیں ان کا ہماری جیب سے اتنا ہی تعلق ہوتا ہے جتنا کسی سیاستدان کا الیکشن کے بعد اپنے ووٹر سے، مگر مجال کہ بات کسی کے بھیجے میں گھس جائے۔ تاہم ہماری سفید پوشی کے اشتہار عید آنے پر سرِبازار لگ جاتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ عید کے آس پاس بینکرز کو کالوں کا تانتا بندھ جاتا ہے کہ نئے نوٹوں کی اتنی اتنی گڈیاں چاہئیں۔ اور پھر اوپر سے پیسے مانگنےسے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ پیسے تو آپ کے پاس ہوں گے ہی، میں گڈیاں لینے آؤں گا تو دے جاؤں گا۔ بندہ پوچھے کہ بھائی اس طرح اور بیس کالز بھی ہم بھگتا چکے ہیں، اگر سب کے نوٹوں کے بنڈل ہم نے اپنی تنخواہ ہی سے لینے ہیں تو ہم کھائیں گے کیا اور اوڑھیں گے کیا؟

اگر کسی سے عرض کر ہی دیں کہ سٹیٹ بینک نے نئے نوٹوں کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے تو اس کے دو طرح کے جواب ملتے ہیں۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ ہاں وہ تو ہم لے چکے، اب اور بھی چاہئیں۔ اور باقی کچھ تو باقاعدہ ناراض ہو جاتے ہیں کہ بینک میں اتنی اعلیٰ پوسٹ پر ہو کر بھی اتنی نیچی بات کر دی۔ ہم ابھی اپنی اونچائی نچائی کو ناپ رہے ہوتے ہیں کہ آگے سے جذباتی غنڈہ گردی شروع ہو جاتی ہے کہ آپ کی تو ایک کال پر کام ہو جائے گا، اب آپ کو نہ کہیں تو کس کو کہیں۔ اب بھلا تعریف کس کو پسند نہیں ہوتی، ہم ذرا پگھل سے جاتے ہیں۔

اب جن لوگوں کو یہ بنڈل چاہئیے ہوتے ہیں ان سب کی اغراض بھی الگ الگ اور مضحکہ خیز حد تک عجیب ہوتی ہیں۔ ایک صاحب تو صرف اس لئے نئے نوٹوں کی گڈیاں لیتے ہیں کہ ان کے حلقہ احباب میں لوگوں کومعلوم ہے کہ ان کے ایک دوست (یعنی کہ ہم) بینک میں کام کرتے ہیں، تو وہ احتیاطاً ہی گڈیاں لے چھوڑتے ہیں کہ جب بھی کوئی مانگے گا تو کھٹ سے نکال کر دے دیں گے۔

ایک صاحب نے لاکھوں کی گڈیاں منگوائیں، پوچھنے پر جھینپ کر کہنے لگے کہ عید پر راتوں کو مجرے کی محافل منعقد کرانی ہیں، اس میں ویلوں کے لئے نئے نوٹ چاہئیں۔ ہم تو اس گناہِ بے لذت کو کوسنے لگے کہ گناہ بھی اپنے سر لے لیا اور حاصل وصول بھی کچھ نہیں۔

ایک صاحب نے ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کی گڈیاں بھی ‘آرڈر’ کیں۔ انتظام تو ہم نے کر دیا مگر جب لینےآئے تو پوچھا کہ اتنے بڑے نوٹوں کی اتنی گڈیاں کیا کرنی ہیں، کہنے لگے کہ کچھ زمین خریدی تھی اس کی ادائیگی کا جب وعدہ کیا تو ساتھ ہی نئے نوٹوں کی پھَڑ بھی مار بیٹھا، اب زبان دے چکا تھا اس لئے نئے نوٹ چاہئیے تھے۔ ہم تھے کہ اس قوم کے مسائل کا لیول دیکھ کر انا للہ ہی پڑھ سکے۔

ایک صاحب کے بارے میں پتا لگا کہ ہم سے دس اور بیس کے نوٹوں کی گڈیاں لے کر مارکیٹ میں مہنگےداموں بیچتے پھرتے ہیں۔ ایسے منافع کو ہم حرام نہ سمجھتے تو ہم بھی اپنا حصہ مانگ لیتے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ سودی بینکاری میں کام کرتے ہوئے بھی رزق کے حلال و حرام کا تصور رکھتے ہو؟ جواب میں ہم سرجھکا کر صرف اتنا ہی کہہ پاتے ہیں کہ ہم اس رب پر یقین رکھتے ہیں جو کہتا ہے کہ ‘رحمتی وسعت کل شئ’ اور ‘ان رحمتی تغلب غضبی’۔ اب بالکل ہی کافر تھوڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).