گرمیوں کی چھٹیاں اور ممی


عید کی چھٹیوں کے دو دن۔ گرمیوں کی چھٹیوں کا اک چھوٹا سا ٹریلر ثابت ہوے۔ جہاں چھٹی کی خبر آتی ہے سب سے پہلے ممی کی سکون اور شکر کی گہری ٹھنڈی سانس نکلتی ہے کہ ”شکر ہے اب آدھی رات کو سو کر صبح سویرے منہ اندھیرے نہیں اٹھنا پڑے گا!“

صرف اٹھنا ہی نہیں بلکہ آنکھ کھلتے ہی بغیر بیڈ ٹی کے، بغیر کچھ سست انگڑائیوں کے، ایک ہی جست میں پوری آنکھیں کھولے کچن کی طرف بھاگنا بھی پڑتا ہے اور نیند کی سستی دھیرے دھیرے اتارے بغیر، بغیر رکے، بغیر سانس لیے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کام کرتے کم سے کم تین گھنٹوں کا کام بھی نپٹانا پڑتا ہے۔ تو چناچہ ویک اینڈ آتے ہی سب سے پہلا سجدہ شکر بھی ممی کا ہی ہوتا ہے کہ چلو ایک صبح کی تو شروعات ذرا دھیمی ہو گی۔ “

مگر بات اسی پر ختم کہاں ہوتی ہے۔ ان چھٹیوں کے آنے پر سب سے پہلی چیخ بھی ممّی کی ہی نکلتی ہے۔ چھوٹے سے رقبہ پر واقع بند کمروں والے گھر میں تین بچے، پورے دو ماہ کے لئے، ایک دوسرے کے مد مقابل، ایک دوسرے سے نبرد آذما۔ اور ان کا فیصلہ کروانے والی، جھگڑے نپٹانے والی ایک تنہا ماں! تینوں ہی ماں کے لاڈ پیار کے بگاڑے ہوئے، پھر بھی تینوں ہی خود کو ٹھکرائے ہوے، unwanted اور خود کو ماں کی سوتیلی اولاد سمجھنے والے۔ اور ممی ایک ایسی ذہنی جنگ اور آزمائش کی شکار جسمیں اسے کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہے، جس سے گھر میں امن بھی ہو، اور کوئی احساس محرومی بھی نہ جاگے۔ (ہے ناں حیرت کی بات کہ پیار کر کر مائیں تھک گئی ہیں اور بچے ہیں کہ ریں ریں کرتے پھرتے ہیں۔ پھر بھی دکھیاری مخلوق) تینوں ہی بنیادی حقوق کی جنگ کے علمبردار، سچ اور حق کی دہلیز پر کھڑے، اور میں ممی ہمیشہ سوچتی ہوں کہ کیسا اچھا ہوتا کہ تین لڑنے والے بچوں میں سے دو کسی اور کے ہوتے۔ سیدھا سیدھا فیصلہ ہوتا دو کو ایک ایک لگاؤ اور اپنے کو بچاؤ! اب تین بچے تینوں اپنے! ایک میز، کرسی یا پن پر جھگڑتے اپنے اپنے حقوق کی دہائی دیتے، ایک بیکار چیز اور تینوں بچے اکھاڑے میں! اب ماں کس کو روکے، کس کو ڈانٹے کس کو لگاے کہ یہ جھگڑا سکون سے نپٹے! ڈانٹ اور تھپڑ جس کو بھی پڑا سب سے پہلی چوٹ خود ممی کو ہی لگنی ہے اور زور کی لگنی ہے اور بچوں نے کہنا ہے ”ہماری ماں بھی کتنی ظالم ہے! “

ہم بھی تو ایسے ہی سوچتے تھے ناں!اپنی ظالم ماؤں میں محبت دیکھ نہ پاتے تھے۔ ہمیں بھی لگتا ہے ہم سرکنڈوں میں خودبخود پیدا ہو کر، خودبخود پل گئے، ورنہ ایسے ظالم ماں باپ کا بس چلتا تو مار ہی ڈالتے ہمیں۔

تو اپنے ہی بچوں کے زندگی موت پر مبنی یہ مسلسل جھگڑے، چھٹی کے دن٬اور ان جھگڑوں کو جھیلنے، نپٹانے اور سنبھالنے والی پل صراط پر چلنے کی کوشش میں گر گر جانے والی یہ ممی۔ افففف میرے پاس اپنی صورتحال بیان کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں ابھی کہ اس وقت کی سختی کو کس طرح بیان کیا جا سکے جو ایسی گھڑیاں ماؤں پر لاتی ہیں۔

ماں ہونا اتنا بھی آساں نہیں ہوتا، کہ گود میں پیارا ساپلکیں جھپکاتا، مسکراتا خرگوش سا، چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں والا گپلو سا بچہ آ گیا مسکراتے رہنے پیار جگانے کے لئے۔ شروع کے دو تین خرگوش نما سالوں کے بعد یہی ننھے ننھے خرگوش ببرشیر اور چیتے بن کر چنگاڑنے لگتے ہیں، لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں، وہی بچے جن کا منہ چوم چوم مائیں تھکتی نہ تھیں ان کے منہ طمانچے سے لال کر دیتی ہیں یا اس شدید ترغیب سے بچنے کی کوشش کرتیں اپنے سروں کو مائیگرین کا عادی بنا بیٹھتی ہیں۔

تو یہ شیروں کے منہ لال کر دینے کا عمل خود ممی کے لئے کسقدر تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر ماں روکتی نہیں بچے کوتو سر پر ان کے بگڑ جانے کا شدید خوف کھڑا کہ یہ دو آمنے سامنے مقابلے پر کھڑے بچے کہیں ایک دوسرے کا منہ ہی نہ نوچ لیں، کچھ اٹھا کر ایک دوسرے کے سر پر ہی نہ مار ڈالیں! اور اگر بڑھ کر چلاتی ہے اور خود اپنے ہاتھوں سے دونوں کو ایک ایک لگاتی ہے تو اپنا دل کتنے ٹکروں میں ٹوٹا کتنی دیر تک دہائیاں دیتا رہتا ہے کہ ”ہاے او ربا۔ یہ کیا کِیا؟ “

مجھے ہمیشہ یوں لگتا ہے کہ مجھے ماں بننا نہیں سکھایا گیا، میرے گھر میں میرے سکول کالج اور یونیورسٹی میں مجھے اس ہنر میں طاق کیوں نہ کیا گیا جو مجھے ساری عمر درپیش رہنا تھا۔ لڑکیاں سولہ سال میڈیکل، انجینئرینگ، سائنس کمپیوٹر، ڈیزائن، ادب اور جانے کیا کیا پڑھتی رہتی ہیں اور بنادی جاتی ہیں آخر میں مائیں! ایسی مائیں جن کے کام کا کچھ بنیادی علم بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔ مجھے اس نوکری کا وہ علم اور مہارت کیوں نہ دی گئی جیسے دوسرے علوم کی دی جاتی ہے۔ جسے سکول کالج کے سوال حل کیے جاتے تھے کہ خبر تھی کہ جواب آتا ہے تو ٹھیک ٹھیک لکھ دیا، دل مطمئن، دماغ پرسکون۔ جیسے برتن دھوئے جاتے ہیں تو چم چم کرتے صاف ستھرے چمکتے برتن نکل آتے ہیں۔ اور برتن دھونے والی ممی کے اندر کام کے مکمل ہونے کا پرسکون احساس اتر آتا ہے۔ کچھ مکمل کر دینے کا خوبصورت احساس!

میتھ یا انگلش کے پرچے دیے جاتے تھے تو کرنے والے کو پتا ہوتا تھا کہ پاس ہو گا کہ فیل۔ دل کو ڈھیروں ڈھیر سکون اور علم بھی کہ نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ یا کسی بھی علم یا ہنر کا ماہر بندہ جیسے اپنا پراجیکٹ مکمل کر کے سکون کی گہری سانس لیتا ہے۔ mommyhood میں اس سکون اور اور تکمیل کے اس احساس کا فقدان ہے کہ انسان ہمیشہ high &low کے بیچ میں لڑھکتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں جانتا کیا اچھا کیا جو اچھا کیا اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ، جو برا ہوا وہ کس طرح بچایا جاے گا؟ یہاں پر اٹھنے والے ہر نئے قدم کے ساتھ ہزاروں سوالات، خدشات اور واہمات جڑے ہیں۔ to be or not to be کا ہر آن جھگڑا ہے!

میں نے بھی دیکھے تھے خوبصورت تابعدار نفیس بچوں کے خواب، ہر بات پر مسکرا کر ”جی ممی“کہہ دینے والے بیچے بچے! ہر وقت مسکرانے والے، پہلے آپ کہنے والے، خوب سارا پیار اور تعریف پانے والے۔ مگر ان خوابوں کی تعبیر ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو کیسے ہوگی اس کی سائنس سے مکمل نابلد تھی!خالی خوابوں سے تعبیریں نہیں بدل جاتیں!اب دیکھتی ہوں ہر گھڑی انہیں خرگوش سے پیارے بچوں کو لگڑ بھگڑ اور شیروں کی طرح چنگھاڑتے، چیختے چلاتے، لڑتے اور جھگڑتے، تو سوچتی ہوں کہ زندگی کہ اس محاذ پر شاید میں ناکام ہو گئی! کہ اس نوکری میں نتیجہ ضروری نہیں آپ کی محنت اور توقعات کے مطابق نکلے۔ رویے بنانے میں آپ کی محنت، خوابوں اور ارادوں کے علاؤہ بھی بہت سی چیزوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس پر بحث کرنے کے لئے علیحدہ اک وقت چاہیے۔

سر دست تو یہ مسلئہ ہے کہ آنے والی دو ماہ کی چھٹیوں میں ایک تنہا ماں نے تین بچوں کے ان سدا بہار جھگڑوں کو کس طرح نپٹانا ہے، یہ وقت کس طرح بتانا ہے۔ اور یہ تصور ہی اسقدر سوہان روح ہے کہ پہلے سجدہ شکر کے ساتھ ہی ممی آنے والے وقت کی تھکاوٹ سے نڈھال ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).