الیکشن کے بجائے سیلیکشن کا عمل ایک اندھے سفر کا باعث بنے گا


انتخابات کو مینیج کرنے میں عدلیہ اور دیگر اداروں نے ملٹری ایسٹیبلیشمنٹ کے اشاروں پر جس بیدردی سے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک متنازعہ اور عجیب و غریب قسم کے فیصلے دیے ہیں انہیں ملکی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ ترین فیصلوں میں شمار کیا جائے گا۔ ایپیلیٹ ٹریبینول نے اختیارات کا بظاہر ناجائز استعمال کرتے ہوئے حس مضحکہ خیز انداز میں شاہد خاقان عباسی کو تاحیات نا اہل قرار دیا ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فی الوقت وطن عزیز میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔

الیکشن کمیشن کے ایپیلیٹ ٹرابیونل نے فیصلے میں شاہد خاقان عباسی دوارے لفظ ”مافیا“ کا استعمال کیا اور فیصلے کے آخر میں بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے گئے اشعار میں سے ایک شعر کا انتخاب کرتے ہوئے نسیم حجازی اور عمیرہ احمد کے افسانوی ناولوں جیسا پورا پیرا گراف بھی لکھ ڈالا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ جج حضرات فیصلہ صادر کرتے وقت قانون کے بجائے افسانوی ناولوں کا ذکر کیوں کرتے ہیں اور اگر انہیں افسانوں اور شاعری سے اتنی ہی رغبت ہے تو پھر منصفی کے بجائے ادیبی اور شاعری کا پیشہ اختیار کیوں نہیں کرتے۔

شاہد خاقان عباسی کو صادق اور امین کی چھری سے زنج کرنے کے پیچھے جو محرکات ہیں ان سے غالبا وطن عزیز کا بچہ بچہ واقف ہے۔ دوسری جانب راولپنڈی والوں کے پیارے چوہدری نثار کو جتوانے کے لئے جس بھونڈے طریقے سے راجہ قمر الاسلام کو نیب کے ذریعے جبری تحویل میں لیا گیا اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نیب کا ادارہ صرف اور صرف مسلم لیگ نواز کے ان امیدواروں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے جو نواز شریف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ اب راجہ قمرالاسلام کا بارہ سالہ بچہ اور اس کی بیٹی اپنے والد کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور چکری کے چوہدری اور ایسٹیبلیشمنٹ کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک بارہ سالہ بچہ اور نوجوان بچی ان کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کی نا اہلی کی وجہ اسلام آباد کے گھر کی قیمت کم ظاہر بیان کی گئی ہے جبکہ شیخ رشید کو اسی قسم کے کیس میں یہ کہہ کر معاف کیا گیا تھا کہ شیخ صاحب نے غلطی سے اثاثوں کی قیمت کم ظاہر کر دی تھی۔ محترم عمران خان کو بھی اس معاملے میں کھلی چھوٹ دی گئی اور آف شور کمپنی انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے اور اپنی مبینہ بیٹی ٹیرن وائٹ کو اپنی اولاد ظاہر نہ کرنے پر بھی انہیں معاف کر دیا گیا۔ راجہ قمر الاسلام کو مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ ملنے سے پہلے تک نیب نے کلین چٹ تھمائی ہوئی تھی لیکن مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ ملتے ہی نیب کو ان کی کرپشن کے ثبوت نظر آنا شروع ہو گئے۔

بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں اور نیب کے سربراہ جاوید اقبال نے اپنے طرز عمل سے ان دونوں اداروں کی بچی کھچی ساکھ کو ملیا میٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ان بھونڈے اور مضحکہ خیز فیصلوں کے بعد اگر کوئی ادارہ یہ چاہے کہ اس کی عزت و تکریم آنکھیں بند کر کے کی جائے تو شاید یہ ناممکن ہے۔ ملک ریاض کو عوام کے پیسے لوٹنے کے جرم میں سزا سنانے کے بجائے اس کو پیسے واپس لوٹانے کی پیشکش اور لوٹے گئے بیس ارب روپے میں سے محض پانچ ارب واپس کرنے کا حکم اس طرح سے صادر کیا گیا کہ جیسے کہ اس نے بیس ارب روپے نہیں محض بیس روپے واپس کرنے تھے جس میں سے اسے پندرہ روہے کا ڈسکاونٹ دے دیا گیا۔ اسے شاید ایک انتہا قرار دیا جا سکتا ہے کہ منصفی کی کرسی ہر بیٹھے لوگوں کے بعض فیصلے عدلیہ، نیب اور الیکشن کمیشن کے اداروں کو کمزور سے کمزور ترین کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

دوسری جانب ایسٹیبلیشمنٹ جو جنرل کیانی فارمولے کے تحت گزشتہ دس برس سے پردے کے ہیچھے سے حکمرانی کرتی آ رہی ہے اس وقت شدید دباؤ کا شکار نظر آتی ہے۔ دنیا کے مقبول ترین جریدوں اور اخبارات جن میں دی اکنامسٹ، وال سٹریٹ جنرل، نیو یارک ٹائمز واشنگٹن پوسٹ وغیرہ شامل ہیں تمام نے ابھی سے ہی پاکستان میں آئندہ منتخب ہونے والے انتخابات کو الیکشن کے بجائے سیلیکشن قرار دیتے ہوئے عام انتخابات کے شفاف نہ ہونے اور پری پول رگنگ کے عمل کو ایسٹیبلیشمنٹ کی چالیں قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ نواز میں بڑے پیمانے پر دراڑیں ڈالنے میں ناکامی اور پنجاب میں اس کے ووٹ بنک کو توڑنے کی سعی لاحاصل کے بعد اب پھر سے عدالتوں اور نیب کا استعمال کر کے اس کے امیدواروں کو نا اہل قرار دینے کا عمل جاری ہے۔ جس قدر عجلت اور مضحکہ خیز انداز میں مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کو نا اہل قرار دیا جا رہا ہے یا انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے اس سے ایسٹیبلیشمنٹ کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اچھی طرح سے ہو جاتا ہے۔

یہی کھیل جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے دور میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ پہلے بھی کھیلا جا چکا ہے لیکن پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کرنے میں نہ صرف تین دہائیاں لگیں بلکہ اس خاندان کے تقریبا تمام افراد کو بھی راہ سے ہٹانا پڑا۔ مسلم لیگ نواز کے ساتھ کھیلے جانے والا یہ کھیل بھی پرانا ہے اور اب کی بار شاید یہ کھیل رچا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پس پشت قوتیں اس وقت آگ سے کھیل رہی ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ یہ آگ ان کو نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ اس میں محض ان کے مخالفین جل کر ہلاک ہو جائیں گے۔

یہ وہی بے وقوفانہ حکمت عملی اور سوچ ہے جو طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کو جنم دینے کا باعث بنی اور آخر میں خود اپنا گھر جلا بیٹھی۔ اسی سوچ نے مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو جوتوں تلے روندھا اور نتیجتا پاکستان دولخت ہو گیا۔ پنجاب کے ووٹر کا غم و غصہ ابھی تک اس کے اندر ہی موجود ہے اور اس کا اظہار وہ بیلٹ باکس کے ذریعے کرنا چاہتا ہے لیکن اگر پری پول رگنگ کا یہ عمل اسی طرح جاری رہا اور ایک ہی جماعت کو عدالتوں اور نیب کے ذریعے تاک تاک کر نشانہ بناتے ہوئے پولنگ ڈے پر بھی بیلٹ باکسز میں گڑبڑ کی گئی تو پنجاب سے کسی بھی وقت ایک احتجاجی تحریک پھوٹ پڑے گی۔

بلوچستان میں پہلے ہی ایسٹیبلیشمنٹ کے خلاف غم و غصہ ہے ایسے میں پنجاب سے کسی تحریک کا اٹھنا حالات کو اس جانب لے جانے کا موجب بن سکتا ہے جہاں پس پشت قوتیں بھی انہیں سدھارنے کی استعداد کھو بیٹیں گی۔ یہ انتہائی سادہ اور کامن سینس کی بات ہے کہ آج کے جدید دور میں قوموں کی بقا اور ترقی کے ضامن بڑے بڑے ہتھیار یا بڑی تعداد پر مشتمل افواج نہیں ہیں۔ آج کے دور میں بقا اور ترقی کے ضامن مضبوط معیشت، ٹیکنالوجی، مضبوط سویلین ادارے اور مستحکم جمہوریت ہے۔ اگر پس پشت قوتیں اس بنیادی نقطے کو آج بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر شاید بہت دیر ہو جائے گی۔

تاریخ ہمیشہ سبق سکھاتی ہے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والی اقوام سے یہ خراج وصول کرتے ہوئے انہیں پستیوں میں دھکیل دیا کرتی ہے۔ انتخابات میں کون جیتتا ہے یا کون ہارتا ہے یہ ایک ثانوی بات ہے اصل بات عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی انجئنرنگ کے عمل کو روکنا ہے۔ بدقسمتی سے پس پشت قوتیں آج بھی وہی پرانے حربے اختیار کر کے سیاسی انجئنرنگ کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کو کچلنا چاہتی ہیں جبکہ عوام میں سے ایک بڑا حصہ اب پس پشت قوتوں کی اجارہ داری کے خلاف ہے۔ یہ اختلاف رائے محض نواز شریف یا اس کی جماعت کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ عوام کے اجتماعی شعور کی بلوغت کی نشانی ہے۔

جو بات پس پشت قوتیں سمجھنے سے عاری ہیں وہ یہ ہے کہ وہ بذات خود مسئلے کی وجہ ہیں مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ جتنی جلدی عوام کے مینڈیٹ کو سیاسی انجئنرنگ کے ذریعے ہائی جیک کرنے کا عمل ختم کیا جائے گا اتنا ہی ریاست اور معاشرے کا نقصان کم ہو گا بصورت دیگر ہم شاید اس لڑائی کی جانب پیش قدمی کا آغاز کر دیں گے جس کے نتیجے میں امریکہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر کاربند رہنے کے فیصلے عوام نے صادر کیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).