لوٹوں کی افادیت


پاکستان کے طول و عرض میں لوٹا لوٹا کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ لوٹا آخر ہے کس بلا کا نام؟ لوٹے کے بارے میں چوہدری پپو مراثی کہتا ہے کہ لوٹا وہ سائنسی آلہ ہے جس کے اندر آپ مرضی کے مطابق مائع ڈالتے رہو اور مرضی کے مطابق نکالتے رہو، مرضی کے مطابق اس کو گھماتے رہو اور مرضی کے مطابق اس سے چاہے گندگی صاف کر لو یا گندگی ڈال لو۔ لوٹے کی اپنی مرضی نہیں ہوتی۔ ساخت کے مطابق لوٹوں کا پیٹ بڑا ہوتا ہے تاکہ ان میں زیادہ مائع سما سکے۔ لوٹے سخت بھی ہوتے ہیں اور نرم بھی۔ لوٹے پلاسٹک، سلور، لوہے، تانبے، کسی بھی دھات اور کسی بھی ذات کے بنائے جا سکتے ہیں۔ لوٹے گورے بھی ہوتے ہیں اور کالے بھی، آج کل مارکیٹ میں ہر رنگ، ہر نسل اور ہر طرح کا لوٹا دستیاب ہے۔

چھوٹا لوٹا بھی ہے جسے آپ چھوٹی سیٹ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ بڑے لوٹے مارکیٹ میں نسبتا کم دستیاب ہیں، ان کے دام بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ خریداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اگر پانچ عدد چھوٹے لوٹے خریدیں تو ساتھ میں ایک بڑا لوٹا بھی خریدیں جسے ان پانچ لوٹوں کا وزیر بنا سکیں۔ طبعی خواص میں کچھ لوٹے خاموش طبیعت ہوتے ہیں اور کچھ شوخ مزاج۔ کچھ لوٹے زبان دراز، بدتہذیب اور بدتمیز بھی ہوتے ہیں۔ ماضی میں لوٹے بنانے والے یونٹ پلاسٹک فیکٹریوں اور دکانوں میں لگے ہوتے تھے۔ آج کل لوٹا ساز فیکٹریاں نظروں سے اوجھل ہیں اور لوٹے بنانے کا کام رازداری اور تسلی سے کیا جاتا ہے۔ ماضی میں لوٹے باتھ روم میں رکھے جاتے تھے اور ان سے اعضائی کی صفائی کا کام لیا جاتا تھا۔ آج کل لوٹے عالیشان کوٹھیوں اور بنگلوں میں رکھے جاتے ہیں اور ان سے گندگی پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ لوٹوں کے بارے میں ایک بات ہر انسان کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لوٹا آپ کے تمام پوشیدہ راز جانتا ہے۔ آپ لوٹے کی طرف منہ کریں یا نہ کریں لیکن لوٹے کا منہ آپ کی طرف ہی ہوتا ہے، وہ آپ کا سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔

یقین مانیے! لوگ لوٹوں کے بارے اس قدر بدگمان ہیں کہ انہوں نے باتھ روم میں لوٹوں کی بجائے ہینڈ شاورز لگا لئے ہیں۔ یہ لوٹوں کی حق تلفی ہے اور میرے خیال میں تمام لوٹوں کو متحد ہو کر اس معاملہ پر احتجاج کرنا چاہیے۔ لیکن اس بات کا ایک فائدہ لوٹوں کو بھی ہوا ہے۔ لوٹوں کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوٹا بیس روپے کا ملتا تھا۔ آج لوٹا لینے کے لئے پانچ سال محنت کرنا پڑتی ہے۔ جنات، چڑیلوں اور نادیدہ قوتوں کے ترلے کرنے پڑتے ہیں۔ کروڑوں کی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ لوٹے سے ڈائیلاگ کرنا پڑتے ہیں۔ لوٹا مان جائے تو پھر اس کے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں۔ لوٹے کو لوٹے کی مرضی کے مطابق ایسی جگہ پر فٹ کیا جاتا ہے جہاں لوگ اسے لوٹا لوٹا لوٹا کہہ سکیں۔

آج تک کی تحقیق کے مطابق لوٹا مذکر ہو یا مونث لوٹا ہی ہوتا ہے۔ لوٹے اور انسان کا گہرا تعلق ہے۔ لوٹا آپ کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے جو شاید آپ کا محبوب آپ کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ اس لئے لوٹے سے ہمیشہ بنا کر رکھنی پڑتی ہے۔ فرض کریں آپ میں سے کسی کا محبوب لوٹا ہو تو آپ اسے کس طرح مخاطب کریں گے؟
لوٹے! میری جان تم میری زندگی ہو، لوٹے آئی لو یو۔ لوٹے مجھے گلے لگا۔ لوٹے مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا پلیز۔ لوٹے۔ لوٹے۔

ویسے مرد کا دل بھی اکثر لوٹا ہو جاتا ہے۔ دل کا نام اگر سچ میں لوٹا ہوتا تو بالی وڈ فلموں کے نام اور گانے کچھ اس طرح ہوتے:

ہم لوٹا دے چکے صنم، ہم آپ کے لوٹے میں رہتے ہیں، لوٹا عاشقانہ۔ لوٹے والے، لوٹا ہے تمھارا، لوٹے والے دلہنیا لے جائیں گے، لوٹا تو پاگل ہے، لوٹا دیوانہ ہے، لوٹے کا رشتہ، لوٹا دے دیا ہے، جان تمھیں دیں گے، دغا نہیں کریں گے صنم، لوٹا چوری ساڈا ہو گیا کی کریے کی کریے۔

ہمارے عاطف اسلم بھی یہ گانا گا رہے ہوتے۔ لوٹے دیاں گلاں، کراں گے نال نال بہہ کے، اکھ نال اکھ نوں ملا کے۔
لوٹوں کو زیادہ سر پر بھی نہیں چڑھانا چاہیے کیونکہ لوٹا کبھی بھی اور کہیں بھی لیک ہو سکتا ہے اور آپ کو گندا کر سکتا ہے۔ آپ روزانہ ٹی وی پر لوٹوں کی لیکیج کی خبریں سنتے ہیں۔ لوٹا انتہائی معاون بھی ہو سکتا ہے اور خطرناک بھی۔ لوٹا کامیابی کی ضمانت بھی ہو سکتا ہے اور ناکامی کی علامت بھی۔ لوٹا ہمیشہ سازگار ماحول تلاش کرتا ہے اور جب اسے سازگار ماحول دستیاب ہو جاتا ہے تو لوٹا اپنے باپ کی بھی نہیں سنتا۔ جدید دور میں تعلیم یافتہ لوٹے بھی دستیاب ہیں اوران پڑھ جاہل اور گوار لوٹے بھی۔ یقین مانیے بعض لوٹوں نے تو پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور وہ ڈاکٹر زکہلاتے ہیں۔ کچھ لوٹے اچھے ٹی وی اینکر بھی ثابت ہوئے ہیں۔ لوٹوں میں کچھ انجنئیرلوٹے بھی پائے گئے ہیں۔ ان کا زیادہ تر استعمال تعمیراتی ٹھیکوں میں ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ کامیاب بیوروکریٹ لوٹے ہوتے ہیں۔ مارکیٹ میں صحافی اور کالم نگار لوٹے بھی دستیاب ہیں۔ دو طرح کے لوٹوں کے بارے بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ ان دو حرفی اور چار حرفی لوٹوں کے نام ج سے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ لوٹے بڑے رعب دار اور طاقتور بھی ہوتے ہیں۔ پولیس کی چار ویگنیں دو درجن ذاتی محافظ اور بیسیوں خوشامدیوں کے ساتھ بندہ دو کروڑ کی کار سے اترتا ہے اور ہر طرف سے آوازآتی ہے۔ ’لوٹا، لوٹا، لوٹا۔ آج کل ایک سیاسی جماعت نے اتنے لوٹے اکٹھے کر لیے ہیں کہ اس کو اپنا انتخابی نشان لوٹا رکھ لینا چاہیے۔

میں نے ایک سیاسی پارٹی کے ٹائیگر سے پوچھاکہ آپ کی پارٹی کے امیدوار کو لوگ لوٹا لوٹا کیوں کہہ رہے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ عوام لوٹا نہیں کہہ رہی ہے۔ عوام کہہ رہی ہے کہ لوٹ آ، دوسری پارٹی سے سے لوٹ آ۔

جس رفتار سے پاکستان کی عوام لوٹوں کی پہچان رہی ہے مجھے ڈر ہے کہ یہ لوٹے بیرونِ ملک مائیگریٹ نہ ہو جائیں۔ اگر ریاستِ پاکستان لوٹوں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ایکسپورٹ شروع کر دے تو کافی زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان کی سیاست میں لوٹوں کا تصور ختم ہو نے والا ہے کیونکہ اب وہ سب الیکٹیبلز ہو چکے ہیں۔ اس بات کو شیکسپئیر نے اپنے پنجابی شعر میں اس طرح لکھا ہے۔

لوٹا لوٹا کر دی نی میں آپے لوٹا ہوئی۔
آکھو نی ہن الیکٹیبل مینوں۔
مینوں لوٹا نہ آکھو کوئی۔
اس بات کو پروین شاکر نے اس طرح بیان کیا ہے۔
وہ کہیں بھی گیا ’لوٹا‘ تو میرے پاس آیا۔
لوٹا لوٹا جیے لوٹا

الطاف احمد، لاہور
Latest posts by الطاف احمد، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).