ذکر حضرت باہرالقادری کا


لو کَلّو بات۔ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اب بے فضول میں انتخابات کرائے جارہے ہیں، ایسے الیکشن کا کیا فائدہ جن میں پاکستان عوامی تحریک جیسی بڑی جماعت شریک نہ ہو۔ اصل میں بائیکاٹ انھوں نے نوں کیا ہے کہ بقول خود وہ جس نظام کے خلاف لڑتے رہے ہیں اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہمیں اچانک یاد آیا کہ علامہ 2002 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر اس نظام کا حصہ رہ چکے ہیں، مگر اس میں تضاد کیسا، بھئی وہ اس نظام سے تھوڑی لڑ رہے تھے۔

وہ نظام میں سارا انتظام جنرل پرویزمشرف کے ہاتھ میں تھا، بل کہ پرویزمشرف آپ ہی کُل نظام تھے، جس سے علامہ کی لڑائی آنکھیں لڑانے تک تھی۔ پھر انھوں نے سوچا، ”گستاخ انکھیاں کتھے جالڑیاں‘‘ اور نظام سے آنکھیں پھیر کر کینیڈا کا پھیرا لگانے گئے پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔

سیاست میں لوگ ”اندر‘‘ ہوتے ہیں لیکن شیخ الاسلام کی نے ہمیشہ باہر کی سیاست کی ہے۔ وہ 2002 کے چناؤ میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد استعفیٰ دے کر اس سے باہر ہوگئے، پھر ملک سے باہر چلے گئے اور اب انتخابات سے باہر ہوگئے ہیں، اتنا باہر ہونے کے باعث لوگ انھیں ”باہرالقادری‘‘ کہنے لگے ہیں۔

ہم نِرے گھامڑ ہیں، اس لیے جب بھی علامہ نے نظام کے خلاف یا اس سے لڑنے کی بات کی ہم سمجھ ہی نہ پائے کہ وہ کس نظام کی بات کر رہے ہیں۔ ایک عرصے تک تو ہم سمجھا کیے کہ ان کا ہدف نظام ہاضمہ ہے، بھئی ڈاکٹر جو ہوئے۔ ہم نے انھیں بڑی سنجیدگی سے طب والا ڈاکٹر سمجھتے تھے اور خوش تھے کہ وہ نظام ہاضمہ کی خرابیوں سے برسرپیکار ہیں۔ ہم بدہضمی کے شکار تمام دوستوں کو جاجاکر بتاتے رہے کہ جلد تم لکڑہضم پتھر ہضم ہوجاؤ گے کہ ایک مسیحا آرہا ہے اور ہاضمہ درست کرنے کا ڈکاروں والا اکسیر چورن لارہا ہے۔ جب پتا چلا کہ علامہ نہ وہ والے ڈاکٹر ہیں اور نہ کوئی چورن بنارہے ہیں، تو ان ہی دوستوں کو یہ بتاکر مایوس کردیا کہ۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

ہم اس غلط فہمی میں بھی مبتلا رہے کہ حضرت نظام لوہرا المعروف بہ ڈاکو کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری کی سادگی اور معصومیت پر افسوس کرتے ہوئے کئی بار کوشش کی کہ علامہ سے مل کر انھیں بتائیں کہ وہ نظام تو کب کا دنیا سے جاچکا، دوسرے وہ ڈاکو نہیں حُریت پسند تھا، جو انگریز سام راج سے لڑا، آپ ایوئیں اپنی جان ہلکان کر رہے ہیں، جتنا وقت آپ اسے ڈھونڈنے میں صرف کر رہے ہیں اتنے میں تو آپ پانچ چھے ہزار کتابیں تصنیف کرچکے ہوتے۔ یوں بھی وہ کوئی دو سو سال پہلے گوروں سے جنگ آزما ہوا تھا، اب تو گورے بھی اس سے مخاصمت نہیں رکھتے، تو سرکار کیوں خود کو اصلاح پسند اور امن پسند مسلم اسکالر ثابت کرنے کے لیے اُسے مٹانے پر تُلے ہیں۔ آپ کے لیے مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ نظام کے خلاف ہیں کسی ڈاکو کے نہیں، بعض ڈاکوؤں سے تو ان کا ڈاکخانہ بہ آسانی مل جاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ ان کا ہدف ”نظامِ حیدرآباد دکن‘‘ ہیں، مگر نہ نظام رہے نہ ان کی ریاست حیدرآباد دکن سلامت رہی تو پھر کیسی دشمنی؟ بل کہ حیدرآباد دکن کے ہر حضورنظام نے گوروں کا ساتھ دیا تھا اور یہ شیخ الاسلام گوروں کے ساتھ ہیں، اس یکسانیت کے بعد دشمنی کیسی؟
آخرکار ہم پر یہ بھید کُھل ہی گیا کہ علامہ انتخابی نظام کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور ہم افوووووووکر کے رہ گئے۔

انتخابات کو اپنی ذاتِ بابرکات سے محروم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جناب طاہرالقادری نے فرمایا، ”کچھ لوگ آج کہتے ہیں کہ الیکٹ ایبل آج پارٹی کی ضرورت ہیں، اگر الیکٹ ایبل ضرورت ہیں تو پھر دھرنے کیوں دیے۔ ایک طرح کے چہرے ہر بار ہر اسمبلی میں نظر آتے ہیں، خدا جانے یہ مذاق کب تک ہوتا رہے گا۔ ‘‘ روئے سخن عمران خان کی طرف ہے۔ دو بڑوں کے بیچ میں بولنا نہیں چاہیے، اور بڑے جب آپس میں ”سیاسی کزن‘‘ کی بھائی بندی میں بھی بندھے ہوں تو خود سے کہنا چاہیے ”ابے بندہ بن چُپ رہ‘‘، مگر کیا کریں ہم بڑے منہہ پھٹ ہیں، جب تک سر نہ پھٹ جائے بَک بَک کرتے رہتے ہیں۔ تو کہنا یہ ہے کہ حضرت! جس طرح جلسوں اور تحریکوں کے لیے وہی پیپلزپارٹی ضرورت بن جاتی ہے جس کے خلاف دھرنا دیا تھا تو الیکشن جیتنے کے لیے الیکٹ ایبلز کو ناگزیر سمجھنے پر اعتراض کیوں؟

حضرت کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اسمبلی میں ہر بار ایک طرح کے چہرے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اسمبلی کے لیے کس طرح کے چہرے درکار ہیں؟ بھئی اسمبلی میں سارے پاکستانی ہیں تو چہرے بھی لگ بھگ ایک طرح کے ہی ہوں گے ناں۔ اگر اتنی سی بات تھی کہ ”نظام نہیں چہرے بدلو‘‘ تو پہلے بتایا ہوتا۔ ہم ممتا بھرے جذبات لیے الیکشن کمیشن کے سامنے پھیل جاتے کہ ہمارا مُنا ان پُرانے چہروں کو دیکھ دیکھ کر بور ہوگیا ہے، رونے لگتا ہے، ہم کچھ نہیں جانتے کچھ بھی کرکے چین، کوریا، تھائی لینڈ، موغادیشو، صومالیہ، تنزانیہ اور یورپ سے نئے اور رنگارنگ چہرے درآمد کرکے اسمبلی لاؤ اور مُنے کا اسمبلی میں آکر کھیلنے کا موڈ بناؤ۔ خیر اب تو دیر ہوگئی۔

اس بار لگتا ہے حضرت طاہرالقادری نظام سے بہت ”زور سے‘‘ مایوس ہوئے ہیں، یعنی اب کی انقلاب آوے ہی آوے۔ انقلاب کا سوچ کر ہمیں کچھ مناظر یاد آگئے، جیسے حضرت کا کفن لہرانا، قبر کھدوانا، اپنی شہادت پر تُل جانا۔ پتا نہیں وہ کفن کا کپڑا کہاں گیا۔ حضرت کے ایم کیوایم والوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں، جس کے قائد اس زمانے تک الطاف بھائی تھے، وہ کپڑا انھیں بھیج دیتے، ان کا پاجامہ بن جاتا اور دونوں راہ نماؤں کی آپس میں زیادہ بننے لگتی۔ علامہ دانش مند ہیں، جانتے ہیں کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اُس میں گرتا ہے، چناں چہ اپنے لیے قبر کھودی، اس لیے خود بھی نہیں گِرے۔ حضرت کے اس عمل سے پتا چلتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے لیے گڑھا کھودنا چاہیے، جس میں وہ کبھی نہیں گِرے گا۔ وہ پہلے نوازشریف سے مایوس ہوئے، پھر پرویزمشرف سے مایوس ہوئے، اس کے بعد نظام سے مایوس ہوئے اور اب عمران خان سے بھی مایوس ہوچکے ہیں، لے دے کے اب انقلاب ہی بچتا ہے جس سے انھوں نے امید باندھ رکھی ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ بھیا اب انقلاب لے ہی آؤ، لیکن اس سے پہلے جناب باہرالقادری کو ایک درخواست ”داخلِ دفتر‘‘ کرنا ہوگی، جس کا متن کچھ یوں ہوگا:

”حضور والا!
فدوی پاکستان میں ایک عدد انقلاب لانا چاہتا ہے۔ اجازت ہو تو لے آئے؟ امید ہے آپ یہ درخواست منظور فرما کر انقلاب کو آنے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔ دوسری عرض یہ ہے کہ یہ انقلاب بہت نازک مزاج ہے، پھر کینیڈا سے آرہا ہے اس لیے پاکستان کی آب وہوا بھی اسے راس نہیں۔ گزارش ہے کہ اس کے لیے اسلام آباد کی فضا کو آلودگی سے پاک کیا جائے، ایئرپورٹ سے ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر تک سڑکیں خالی رکھی جائیں تاکہ انقلاب آناً فاناً اپنی منزل پر پہنچ سکے اور اسے کہیں رُک کر تھکنا نہ پڑے، ورنہ یہ علیل ہوجائے گا اور علاج کے لیے کینیڈا لوٹ جائے گا۔ ‘‘
ہمیں یقین ہے کہ یہ درخواست منظور ہوگی، ملک میں انقلاب آجائے گا اور نظام منہہ کی کھائے گا، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).