شہباز شریف پان کھائیں، بند عقل کے تالے کھولیں


بچپن میں کئی سال تک یہ معمول رہا کہ ہر جمعہ چھٹی کے روز امی سے پیسے لیے ایک تو اخبار خریدا دوسرا اخبار والے کے ساتھ ہی پان شاپ سے میٹھا پان۔ گھر کی سیڑھوں پر ہی بیٹھ کر پان منہ میں دبایا اور اخبار میں بچوں کا صفحہ الف سے ے تک پڑھ کر باقی اخبار امی کے حوالے کیا۔

کل سابقہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے پان کا ذکر کچھ ایسے چھیڑا کہ لگا کراچی میں موجود لاکھوں پان کے شوقینوں کو چھیڑ دیا ہو۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں وہ پان نہیں کھاتے انہیں علم ہی نہیں کہ سبز گلوری کیا بلا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ شہباز صاحب پانوں میں سب سے پہلے بنارسیا پان کھا کر دیکھیں۔ کہتے ہیں کہ بنارس کا پان ایسا نرم و رسیلا ہوتا ہے کہ منہ میں رکھتے ہی گُھل جاتا ہے اور دماغ میں لگا اکڑ فوں کا تالا کُھل جاتا ہے۔

شہباز شریف نے کراچی جا کر پان کھایا ہوتا تو آواز میں ٹھہراؤ اور لہجے میں وضع داری آجاتی۔ بیٹھا ہوا گلا پان میں ڈلی ہلکی میٹھی سی مُلیٹھی ہی صاف کردیتی پھر مقامی ہوٹل میں احمد رشدی کا “اکیلے نہ جانا “ گاتے تو سُر بھی پکے لگتے۔ اور کتھا چونا مل کر دل و دماغ کا میل کرید دیتا۔ پان کھاتے تو منہ سے طعنوں تشنوں کی جگہ الائچی سے مہکے پھول جھڑتے۔ اور اگر کراچی کے صحافیوں کے مصالحے دار سوالوں سے سینہ جلنے لگا ہو تب بھی پان میں شامل سونف ہاضمہ کرتی۔ سرخ گلاب سے بنا گلقند سینے میں ٹھنڈ اتار دیتا۔ مگر جائیے صاحب بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔

ہمارے اجداد یوپی کے اردو بولنے والے ہیں۔ پان کے پتے۔ پاندان۔ سروتا۔ کتھا۔ چونا۔ سادی باریک کتری چھالیہ۔ اگالدان۔ گلوری دان۔ پان کے رومال یہ سب اپنے گھروں میں دیکھا اور آج بھی فخر ہے کہ پان کی روایت کے امین ہم ہیں۔ پان مغلیہ دور سے بھی قدیم برصغیر کا وہی تاریخی کھاجا جس میں حکمت بھی ہے ذائقہ بھی۔

ہم سے پہلے کی نسل تک کراچی میں شادی پر بیٹی کو چاندی کا پاندان دیا جاتا تھا۔ ایسا ہی چاندی والا نقشین پاندان ہمارے گھر بھی تھا۔ پان روزمرہ کوئی کھاتا نہیں تھا ہاں مگر ہر دعوت۔ محرم کی مجلس۔ عید وغیرہ کے موقع پر پاندان سجا دیا جاتا تھا جس میں بھُنی ہوئی سونف اور کھوپرا خاندان کے بچے ہی منٹوں میں نمٹادیتے تھے۔ اکثر یہ کُرکُری سونف مٹھی میں بھر لیتے تو پیچھے سے خاندان کی بڑی بوڑھیاں دھپ سے ایک چپت رسید کرتیں کہ موئی ساری سونف تم لوگ ہی کھا جاؤ گے تو پان کھانے والے کیا لیں گے۔

خاندان کی یہ بزرگ خواتین ہر چھوٹی موٹی بیماری کا شافی علاج پان سے کرتی تھیں۔ ملیٹھی والا پان ہلکے بخار اور خراب گلے میں۔ معدے کی گرانی کی صورت گھر میں بنا گلقند پان کے بیچ رکھ کر دے دیا۔ کبھی پان میں چونے کی مقدار بڑھائی تو پان دوا بن گیا۔ خواتین کے پان میں کتھا ذرا زیادہ کیا تو ہونٹ ہلکے سرخ ہوگئے۔ جسم میں نقاہت کا علاج پان کی گلوری پر چپکے سونے چاندی کے ورق ہوگئے۔ اور سب سے بڑھ کر پان کے پتے خود کتنے اوصاف کے مالک ہیں شہباز شریف کو پتا چل جائے تو شاید راوی کنارے پان کی بیلیں لگانے کا پلان ان کی الیکشن مہم کا حصہ بن جائے۔

گھروں سے پاندان رخصت ہوئے اور ہر گلی کے نکڑ پر پان کی دکان بن گئی۔ پان کی شکل بگڑی اور اس میں الا بلا ملا کر ملغوبے کو گٹکے کا لقب مل گیا۔ شوقین بھی بے ذوق ہوگئے کہ یہاں موٹی سے گلوری منہ میں بھری اور وہاں سرخ پیک سے دیوار لال ہوئی۔ پان کی سُرخ پیک اس روایت کی ایک ناگوار شکل ہے۔ یہاں وہاں پیک تھوکنا اس روایت کا کبھی حصہ تھا ہی نہیں۔ جہاں پاندان ہوتے تھے وہاں اگالدان ہوتے تھے۔ پان کھانے کا سلیقہ بھی یہی تھا کہ گلوری منہ میں دبا لی جاتی تھی جس کا رس آہستہ آہستہ نگلتے تھے۔ منہ خشک رہتا تھا بات کرتے ہوئے منہ ٹیڑھا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

اب یہ عالم ہے کہ پان کھانے والا منہ کھولتا ہے تو ہونٹوں کی چونچ سی بناکر گردن ذرا اونچی کرلیتا ہے کہ منہ میں بھری پیک لیک نہ ہوجائے۔ کراچی والوں کا یہ بھی ایک ٹیلنٹ ہے جس پر ملکہ خاصی پریکٹس کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ہاں اس نکتے پر میاں شہباز شریف کو اسپیشل ڈسکاونٹ دیا جاسکتا ہے کہ وہ پان کھا بھی لیں تو لگتا یہی ہے کہ پیک کی لیک پر کنٹرول کم از کم اگلے پانچ سال تک حاصل نہیں کرسکتے۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi