رجب طیب اردگان، ترکی، ترقی اور مذہبی انتہا پسندی


رجب طیب اردوان نے ترکی کو بے مثال ترقی کروائی ہے۔ معیشت کو مضبوط کیا اور ترک قوم پرستی کو پھر سے اجاگر کیا جس کی ابتدا مصطفی کمال نے کی تھی۔ دنیا کے سامنے ترکی کا تشخص بہتر کیا۔ جدید ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ترک فوج کا ریاستی اور جمہوری معاملات میں اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ جس کا عملی ثبوت بھی ہمیں دیکھنے کو ملا کہ کس طرح ترک عوام نے سڑکوں پہ نکل کر فوجی بغاوت کو ناکام بنایا اور منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیا۔ یہ شاید دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد واقع تھا۔

اردگان نے ہی مصطفی کمال کے خوابوں کے مطابق مضبوط معیشت کے حامل ترکی کی بنیاد رکھی۔

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ ترکی کی ترقی کے لیے رجب طیب کی خدمات قابل ستائیش ہیں۔ تاہم پچھلے چند سالوں سے رجب طیب اردگان نے خود کو ڈکٹیٹر بنا رکھا ہے۔ مخالفین پر حیات تنگ کر رکھی ہے۔ جن میں انتہائی دائیں بازو کے مذہبی رہنما اور ان کی تنظیمیں خصوصا گولن کی تنظیم اور ساتھ ہی سیکولر افراد اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ دوسرا وہ آہستہ آہستہ تمام طاقت اپنی ذات میں مجتمع کرتے جا رہے ہیں۔ صدارتی نظام کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

دوسری طرف عالمی سیاسی منظر نامے خصوصا مشرق وسطی کی دگرگوں صورتحال کا جائیزہ لیا جائے تو اس سارے معاملے میں اردگان صاحب کا کردار انتہائی منفی نوعیئت کا نظر آتا ہے۔ مسلم ممالک میں وہ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ شام میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی سنی جہادی تنظیموں کے قیام میں سعودی عرب، امریکہ اور مصر کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور آج انھیں ممالک کو اس تنظیم کے حملوں کا سامنا ہے۔

کردوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال صرف ترکی کے اندر ہی نہیں بلکہ عراق اور شام کے اندر گھس کر بھی کیا جارہا ہے۔ جو کہ ان جنگ زدہ ممالک کی داخلی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں حوثی شیعوں کے خلاف برسر پیکار سعودی اتحاد کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ عالم اسلام میں فرقہ وارانہ کشیدگیوں کی حوصکہ افزائی اور سرپرستی ایک خطرناک رجحان ہے۔

میرا خیال ہے اردگان کے طاقت میں آنے کا مقصد پورا ہوچکا ہے۔ انھوں نے ترکی کو ترقی کی شاہراہ پہ ڈال دیا ہے۔ اب جس روش پر وہ چل رہے ہیں ان کا اب مزید مسند اقتدار پر فائض رہنا نہ صرف عالم اسلام بلکہ ترکی کے لیے بھی باعث نقصان ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).