پرویز خٹک تو نوشہرہ والوں کو دریا میں پھینکنے کا اعلان کر بیٹھے ہیں


شعروں سے دل کا معاملہ طشت از بام ہوا تو شاعر کو رسوائی کے دکھ نے آن لیا۔ شعر کا لہجہ البتہ بتاتا ہے کہ شاعر کو دکھ ہر گز نہیں۔ احمد فراز سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ اگر دنیا سے تمام خوبصورت عورتیں اٹھ جائیں تو شاعر حضرات کیا کریں گے؟ فراز نے بے ساختہ جواب دیا کہ اس سے پہلے تمام شاعر اٹھ چکے ہوں گے۔

حسیناؤں کے دنیا سے اٹھنے سے شاعر اٹھیں نہ اٹھیں، احمقوں کے اٹھ جانے سے سیاستدان ضرور ناپید ہوجائیں گے۔ کم ازکم پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں کے متعلق تو یہ بات بلا خوف کہی جا سکتی ہے۔ اب ذرا انتخابی میلے کے متعلق سوچئے یہ انتخابِ نمائندگان ہے یا انتخابِ لوٹا جات؟

شاعر نے جس طرح خوشی خوشی شعروں کے انتخاب سے ہاتھ آئی رسوائی کا رونا رویا تھا اس سے کہیں زیادہ مسرت سے ہمارے لیڈرز لوٹوں کو گلے لگاتے ہیں۔ روایتی سیاسی جماعتیں تو جانے دیں ہمارے کپتان خان جو مدتوں لوٹوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ‘ملک کا بیڑہ غرق کردیا’ ان کا مشہور تکیہ کلام بن گیا تھا۔

اصولی سیاست کی تکرار سے ہمارے کان پک گئے تھے۔ آج وہی خان صاحب لوٹوں کی مالا پہنے عوام کے سامنے سینہ پھیلائے اُسی لے میں تبدیلی کی گردان کیے جا رہے ہیں۔ اب کوئی مجھے سمجھائے کہ اُن کی نظر میں اس دھرتی پر بسنے والے احمق نہیں تو کیا ہیں؟

کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ یہ سونا اگلتی زمین کن کے ہتھے چڑھی ہے یا یوں کہئے کہ یہاں کے باسی کس قدر بدنصیب ہیں جن کو سیاستدانوں کی صورت وہ نمونے عطا ہوئے ہیں، جو دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک صاحب ہمارے حلقے میں بھی پائے جاتے ہیں۔

خیر سے ایچی سونین ہیں اور خان صاحب کے ہم سبق۔ ” ماؤ مجنُوں، ہم سبق بُودیم، در دیوانِ عشق‘‘ یہ صاحب مصرعے میں تھوڑی سی تحریف کرکے کہہ سکتے ہیں کہ ” ماؤ عمراں، ہم سبق بُودیم، در دیوانِ عشق‘‘۔ تحریف شدہ مصرعے میں عشق کچھ پھیکا پڑھ گیا لیکن ایک بات ہے کہ دونوں صاحبان کا کرسی سے عشق مثالی ہے۔ جی میں پرویز خٹک کی بات کررہا ہوں۔

موصوف نے سیاست شروع کی تو ایک ہی مقصد تھا جس کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے، وہ تھا وزیراعلی بننا۔ 1993 میں یہ خواہش پوری ہونے کو تھی کہ اللہ بھلا کرے نصیراللہ بابر نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ بینظیر بھٹو کی فہم و فراست اندھی نہیں تھی کہ مردم شناس نصیراللہ بابر کی رائے نظرانداز کرکے پرویزخٹک کو وزارتِ اعلی سے نوازتی۔ قسمت ہماری دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گئے یاد آیا کہ جنرل بابر، عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔

جنرل بابر کے تبصرہ نما بیانات سے تنگ آ کر خان صاحب نے انہیں این اے فائیو (موجودہ چھبیس) سے الیکشن لڑنے کا چیلنج دیا۔ جنرل بابر نے اس وقت اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہوئے خان صاحب کو نمٹا دیا تھا کہ این اے فائیو کی پچ بہت ہارڈ ہے، اس نے کرکٹ بھی کھیلی ہے اور باکسنگ بھی آتی ہے۔

این اے فائیو اب دو حلقوں میں منقسم ہو کر این اے پچیس اور چھبیس بن گیا ہے جہاں سے پرویز خٹک اور ان کے داماد پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ خٹک صاحب ماشاءاللہ دو صوبائی حلقوں پی کے 61 اور 64 سے بھی دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔

بھائی پہلے سے ہی ڈسٹرک ناظم اور بیٹے تحصیل ناظم ہیں۔ خان صاحب اور جنرل بابر کا آمنا سامنا نہ ہوسکا اور یوں خان صاحب ناک آوٹ ہونے سے بچ گئے لیکن جنرل بابر سے اپنا انتقام یوں لیا کہ اس کے حلقے کو پرویز خٹک کی جاگیر بنا ڈالا۔

خان صاحب کے اس کارنامے پر ان کو وہ بے پناہ شاعر، اجمل خٹک بھی خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوں گے۔ یاد رہے کہ این اے چھبیس (سابقہ این اے فائیو) میں جنرل بابر اور اجمل خٹک میں پنجہ آزمائی تاریخ کا حصہ ہے۔ اٹھاسی میں خاکسار چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا جب ایک جلسے میں جنرل بابر نے اجمل خٹک پر وار کرتے ہوئے اس کو میٹرک پاس دوسری جماعت کا استاد کہا۔

جوابی جلسے میں اجمل خٹک نے جنرل صاحب کو صوبیدار کہہ کر اپنا انتقام لے لیا۔ ان دنوں سیاسی نوک جھونک تہزیب کی دائرے سے نہیں نکلی تھی، اخلاقی اقدار زندہ تھیں۔ بات ہورہی تھی پرویز خٹک کے مقصد حیات کی۔ موصوف وزیراعلی بن کر اس کو پاچکے لیکن اب اس کے خمار سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

ابھی الیکشن کا معرکہ درپیش ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے مخالف گروپ کی ٹانگیں بھی کھینچ رہے ہیں۔ ‘اے بسا آرزو کہ خاک شدہ’۔ موصوف کی عقل کو داد دیجئے کہ وزارتِ اعلی کا منصب بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

نوشہرہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور نوشہرہ ہی کے ایک گاؤں میں عوام کو جوشِ خطابت میں فرماتے ہیں۔ ”اِن نوخاریانو (نوشہرہ والوں) کو دریائے کابل میں پھینک کر آئیں گے“۔ اب دل کو روئیں کہ جگر کو پیٹیں؟ ایک ایسا بندہ کس طرح تعصب سے بلند ہو کر فیصلے کر سکتا ہے جس کا لہجہ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تبدیل ہو جاتا ہے۔

نوشہرہ کا شہری علاقہ آس پاس کے کئی ایک دیہات سے کم ہے، نوشہرہ کلاں ایک گاؤں ہی ہے۔ موصوف کا اشارہ نوشہرہ کلاں سے تعلق رکھنے والے اپنے مدمقابل امیدوار کی طرف تھا لیکن جوش کی بہتات اور ہوش کی قلت نے معاملہ نوشہرہ کے ہر گاؤں اور ہر محلے تک پھیلا دیا۔ نوجوان بپھر گئے اور بڑے مان سے چڑھائے گئے پی ٹی آئی کے جھنڈے اتار کر نذرِ آتش کر دیے۔

اب حالت یہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر آباد اضاخیل نامی گاؤں میں نوجوانوں نے وزیراعلی کے فرزند کی گاڑی روک کر ہاتھاپائی کی اور گاڑی کے شیشے توڑ دیے۔ موصوف کے کئی اور فرمودات بھی سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جس کو دیکھ کر آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ کون سا ایموجی کلک کریں کیونکہ اتنے سینئر لیڈر کی بچگانہ اور احمقانہ ویڈیوز جہاں اس کے مخالفین کے لئے تفنن طبع کا سامان لئے ہوئے ہیں وہاں اس کے مدافعین کے لئے شدید دکھ اور شرمندگی کا باعث ہیں۔

کچھ جذباتی لوگوں کو یہ خوب اشتعال بھی دلا رہے ہیں۔ بہرحال وزیراعلی کے چاہنے والے پچھلے پانچ سال کے مزے چرچے بھولے نہیں اور تاحال تبدیلی کے دعوے کرتے اور نعرے لگاتے پائے جاتے ہیں۔ انہیں بالکل خبر نہیں کہ راکھ کے ڈھیر پر اب رات بسر کرنی ہے۔ جل چکے ہیں میرے خیمے مرے خوابوں کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).