سند باد جہازی اور دبئی کی مقدس سرزمین کے ٹھگ


ان متحرک روشوں نے ہمیں ایک بہت بڑے بازار میں لا کھڑا کیا جہاں موٹر کار سے لے کر بچوں کے کھلونے تک بک رہے تھے۔ ایک جگہ چند افراد وردی پہنے پانی کی بوتلیں سامنے میز پر رکھے کھڑے تھے۔ ہمیں پیاسا جان کر ان میں سے ایک نے بوتل کی طرف اشارہ کیا۔ واقعی ہمارا منہ چنے چبا چبا کر خشک ہو رہا تھا۔ اس عرب کی مہمان نوازی پر ہمیں خوشی ہوئی اور ہم نے ایک کے بعد ایک تین بوتلیں پی ڈالیں تو کچھ تسلی ہوئی۔

فریدوں میاں آگے نکل گئے تھے۔ ہم ان کے پیچھے لپکے تو صاحب ان عربوں نے تو فضیحتہ کر دیا۔ ایک نے پیچھے سے ہمارا پلو پکڑ کر کھینچا تو دوسرا ہمارے سامنے رستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ عربوں کی مہمان نواز کے قصے ہم نے بہت سن رکھے تھے۔ حاتم طائی نے تو اپنا مہنگا عربی گھوڑا بھی ایک مہمان کو ذبح کر کے کھلا دیا تھا۔ ان کا خلوص دیکھ کر خوشی تو ہوئی لیکن ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں جہاز نہ نکل جائے۔

ان کو اشاروں سے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ بھائی پھر کبھی آپ کی طرف کھانا کھا لیں گے، ابھی جانے دو، مگر وہ نہ سمجھے۔ اتنی دیر میں فریدوں میاں ہمیں تلاش کرتے ہوئے واپس پلٹے تو ہم نے ان کو کہا کہ ان عربوں کو سمجھائیں کہ ہم اس وقت ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہیں۔ فریدوں نے کچھ گٹ پٹ کی اور پھر ہمیں کہنے لگا کہ بھائی سند باد، آپ کتنی بوتلیں پی گئے ہیں، یہ تیس درہم مانگ رہے ہیں۔ ہم نے لاکھ کہا کہ سادہ پانی پیا تھا مگر فریدوں نے ہمارے بٹوے سے تیس درہم نکال کر ان عربوں کو دیے تو انہوں نے ہماری جان چھوڑی۔ یہ ضرور سرزمین عرب کے ٹھگ ہوں گے جو پانی پلانے کے اتنے پیسے لیتے ہیں جیسے میونسپلٹی کے نلکے کا نہیں بلکہ سونے کا پانی ہو۔

اس کے بعد فریدوں نے ہمیں ہاتھ سے پکڑا اور سیدھا ایتھنز کے جہاز کے مہمان خانے میں لے گیا۔ راستے میں ہم لاکھ مچلے کہ ہمیں بازار کی سیر کرنے دو مگر وہ ایک نہ مانا۔ حالانکہ ابھی جہاز کے اڑنے میں کئی گھنٹے باقی تھے اور ہم ادھر موجود فرنگیوں اور فرنگنوں کو راہ راست پر لا سکتے تھے۔ ہمیں اندر جمع کرا کر وہ کہیں گیا اور چند منٹ بعد پلٹا تو اس کے ہاتھ میں گتے کے دو لمبوترے سے ڈبے تھے۔ ایک اس نے ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا ”الرجی اور کھانسی کی دوائی ہے۔ مجھے یورپ کی آب و ہوا موافق نہیں آتی تو یہ استعمال کرنی پڑتی ہے۔ یہاں سستی مل رہی تھی تو لے لی۔ ایک آپ کے سامان میں رکھنی ہو گی کیونکہ ایک مسافر کو ایک کی اجازت ہے“۔

کچھ دیر بعد جہاز میں مسافر سوار ہونے لگے۔ فریدوں نے ہمارا ٹکٹ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑا اور جہاز کے اندر کھڑی فرنگی جاسوساؤں بے بچاتا ہوا ہماری سیٹ پر لے گیا۔ کچھ دیر بعد جہاز اڑا اور اس کے بعد وہی پرانا منظر دوبارہ دہرایا گیا۔ کچھ دیر بعد فرنگنیں اپنی پہیوں والی میز لے کر آ گئیں۔ فریدوں نے ایک گلاس میں کولا مانگی اور ساتھ اس فرنگن سے ایک چھوٹی سی شیشی طلب کی جس میں ایک روپہلی سیال تھا۔

فریدوں نے ہمیں متجسس نگاہوں سے گھورتے دیکھا تو وضاحت کرنے لگا کہ اس نے فرنگی مہ جبیں سے کھانسی کی دوائی لی ہے جسے کولا میں ملا کر پینے سے الرجی اور کھانسی سے محفوظ رہے گا۔ ہمیں بھی حلق میں ریشہ اور کھانسی محسوس ہو رہی تھی مگر ہمارے اصرار کے باوجود اس نے ہمیں دوا نہ دی بلکہ دو تین مزید شیشیاں منگوا کر پی گیا۔ واقعی دوا ہو گی، اس سے بالکل ویسی ہی بو آ رہی تھی جیسے انجیکشن لگواتے ہوئے آتی ہے۔ اب ہم آنکھیں موند کر لیٹے ہیں تو اسی وقت آنکھ کھلی جب اعلان ہو رہا تھا کہ جہاز ایتھنز کے ہوائی اڈے پر اترنے والا ہے۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےسند باد جہازی کا پہلا سفر – دبئی کا جہاز اور فرنگی حسینہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar