تخت یا تختہ والی سیاست


اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے ہمارے معاشرے میں دانیال عزیز نے بے پناہ افراد کو نواز شریف صاحب کے خلاف پانامہ کیس کی پیشیوں کے دوران مسلسل پریس کانفرنسوں کی وجہ سے بہت ناراض کیا۔ نواز شریف کے مخالفین اس حقیقت کے بارے میں بھی بہت چراغ پا رہے کہ دانیال چودھری کئی برسوں تک جنرل مشرف کا جارحانہ دفاع بھی کیا کرتے تھے۔

ایسے مخالفین یہ بات کبھی سمجھ نہ پائے کہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کو کسی جماعت میں نئے آنے والوں کو New Convert والی Zeal کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ دانیال بھی شاید اسی روایات کے جبر کا شکار ہوگئے اور بالآخر 2018کے انتخابات سے چند ہی روز قبل سپریم کورٹ کے ہاتھوں توہینِ عدالت کے مجرم قرار پائے۔

محض تابرخواست عدالت ملی سزا بھی لیکن دانیال عزیز کو انتخابی عمل سے 5سال کے لئے باہر رکھے گی۔ وہ اپنے آبائی حلقے شکرگڑھ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ہوئے مقابلے سے گویا ریڈکارڈ دکھاکر باہر نکال دئیے گئے ہیں۔

سیاست کے لئے نسبتاََ کم عمری میں دانیال عزیز کامقدر ہوئی نااہلی نے مجھے ایک قطعی مختلف وجہ سے پریشان کیا ہے۔ ان کے والد چودھری انور عزیز صاحب میرے والد کی طرح ہیں۔ کئی رشتوں سے وہ میرے خاندان کے سرپرست بھی ہیں۔ اس رشتے کی وجہ سے میں ذاتی طورپر آگاہ ہوں کہ دانیال کو ان کے والد نے کس لگن سے امریکہ کی ایک معتبر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوجانے کے بعد بجائے کسی غیر ملکی فرم کی نوکری کرنے کے وطن لوٹ کر سیاست میں حصہ لینے کو تیار کیا تھا۔

1991میں دانیال عزیز کو یونین کونسل کا رکن بنواکر لوکل باڈی کے اداروں سے ہوتے ہوئے بالآخر 1997میں قومی اسمبلی تک پہنچنے کا موقعہ ملا۔ اس برس نواز شریف نے پنجاب بھر سے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا تھا لیکن دانیال عزیز نے وہ انتخاب آزاد حیثیت میں جیتا اور قومی اسمبلی میں آکر اپوزیشن کی سیاست کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پیپلز پارٹی مگر موصوف کے لئے کوئی گنجائش نکال نہیں پائی اور پھر اس ملک میں جنرل مشرف ہوگیا۔

دانیال عزیز نے یقینا جنرل مشرف کا ساتھ دیا اور اس کا یہ فیصلہ میرے اور اس کے مابین رشتے میں دوری اور تلخی کا باعث بھی ہوا۔ یہ بات مگر برحق ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں اہم ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود حکمرانوں کے ساتھ اپنی قربت کو دانیال نے کبھی ذاتی منفعت کے حصول کے لئے استعمال نہیں کیا۔دانیال عزیز کا بدترین دشمن اور نقاد بھی اس کے خلاف مالی کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود وہ قطعاََ ایک سیاسی پوزیشن لینے کی وجہ سے انتخابی عمل سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

دانیال کو ملی سزا مجھے یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ آیا غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئے پاکستانی نوجوان جمعرات کو سنائے فیصلے کے بعد بھی وطن لوٹ کر اس کی سیاست میں Grass Rootsیعنی بلدیاتی سطح سے قومی سطح تک پہنچنے کی اذیت کا انتخاب کرنا چاہیں گے یا نہیں۔

فوری تاثر میرا یہ ہے کہ ہرگز نہیں کیونکہ اپنے کئی بزرگ دوستوں کو جانتا ہوں جو نسلوں سے ملکی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے بچے اور بچیاں لیکن غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد غیر ممالک میں رہ کر ہی ملازمت کررہے ہیں یا کسی ذاتی کاروبار میں مصروف۔

انہیں جب پاکستان لوٹ کر ملکی سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بڑبڑانا شروع ہوجاتے ہیں۔

دانیال عزیز کو سزا سنائے جانے سے ایک ہی دن قبل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی الیکشن ٹربیونل نے تاحیات انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا تھا۔ دانیال ہی کی طرح شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک معروف امریکی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم پائی تھی اور وہ پاکستان لوٹنے کی جلدی میں نہیں تھے۔سیاست سے بھی انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔

انکے والد مگر اوجڑی کیمپ میں ہوئے ایک دھماکے کی وجہ سے اچھلے میزائل کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے بھائی زاہد،جنہیں غالباََ خاقان عباسی مرحوم کا حقیقی سیاسی وارث ہونا تھا،زخمی ہوکر دس طویل برسوں تک ونٹی لیٹر پر رہے۔

اپنے والد کی روایت برقرار رکھنے کو شاہد لہذا سیاست میں آنے پر مجبور ہوئے اور 1988میں نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کے بنائے IJI کی ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ بالآخر پاکستان مسلم لیگ نون کا حصہ بن جانے کے بعد انہوں نے بدترین حالات میں بھی اس جماعت سے بے وفائی کا سوچا تک نہیں۔ اکتوبر1999میں جنرل مشرف کے طیارے کو اغواءکرنے کے الزام میں انہیں نواز شریف کا سہولت کار ٹھہرایا گیا۔ اس جرم میں جیل بھیج دئیے گئے۔

نواز شریف صاحب کو ان کے سعودی اور لبنانی دوستوں نے امریکی صدر کلنٹن کی معاونت سے جیل سے رہائی دلواکر سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی بسرکرنے کی سہولت فراہم کردی۔ شاہد خاقان مگر لانڈھی جیل ہی میں قید رہے۔

شاہد خاقان کے ننھیال پاک فوج میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ایئرفورس کے ایک سینئر افسر ہوتے ہوئے ان کے والد جنرل ضیاءکے ساتھ 1970کی دہائی میں اردن میں تعینات رہے۔ ضیاءاور عباسی خاندان کے مابین اس وجہ سے گہرے رشتے قائم ہوگئے۔ شاہد خاقان کو بارہا یہ پیغام بھیجاگیا کہ وہ جنرل مشرف کے طیارے کے اغواءکی ذمہ داری نواز شریف کے سرڈال کر جیل سے باہر آجائیں۔ شاہد مگر اپنی بات پر ڈٹے رہے اور عدالتی عمل کے ذریعے ہی رہا ہوئے۔

موصوف کی تاحیات نااہلی کی سزا سناتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کے معزز جج صاحب نے جو فیصلہ لکھا ہے اس کے متن اور زبان نے کئی قانونی ماہرین کو بہت حیران کیا ہے۔ مجھے زیادہ فکر مگر یہ لاحق ہوئی کہ استواری کے اصول پر ڈٹے ایک اور تعلیم یافتہ سیاست دان کو ریڈکارڈ دکھاکر انتخابی عمل سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ دانیال یا شاہد خاقان عباسی کی سیاسی ترجیحات سے مجھے اس ضمن میں کوئی ہمدردی نہیں۔

اصل خواہش فقط اتنی ہے کہ کاش ہماری تخت یا تختہ والی سیاست میں جھونکے تعلیم یافتہ اور نسبتاََ نوجوان لوگوں کو سیاسی عمل ہی کے ذریعے انتخابی اکھاڑے میں فتح یا شکست کے عمل سے گزرنے کے مواقع میسر رہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).