سازشوں کے جال میں پھنسی ’’معصوم قوم


خوش قسمتی سے ہم ہوش سنبھالنے سے قبل ہی اس اہم قومی مسئلے سے مکمل طور پر بہرہ ور ہو چکے ہوتے ہیں کہ ’’اس وقت ہماری ریاست ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے، اس لیے ہمیں پوری دنیا میں چار سو پھیلے اپنے دشمنوں کی سازشوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بننا ہو گا۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اس عظیم سازش کے اسم اعظم کے تعویذ کو صبح وشام بغیر پانی کے زبردستی نگلنا پڑتا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس تعویذ کے اثرات کی وجہ سے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پوری دنیا اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ہمیں تباہ وبرباد کرنے کے لیے ہمہ وقت سازشوں میں مصروف ہے مثلاً۔

کچھ دوست ممالک (دشمن نہیں) کی ’’دوستانہ‘‘ سازشیں ہمیں مذہب کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیے جا رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے یہ ہمارے معاشرے کا واحد شعبہ ہے جس میں بغیر کسی محنت اور اضافی چارجز کے روز افزوں ترقی جاری ہے اور اس مذہبی تفریق کے ’’خوشگوار‘‘ اثرات ہماری زندگی کے ہر پہلو کو پوری شدومد کے ساتھ متاثر کر رہے ہیں لیکن یہاں ایک بات ضرور باعث حیرت ہے کہ ہماری اکثریت ایک قرآن اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والی ہے تو پھر معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر اتنا فتنہ فساد یا خون خرابہ کیوں ہے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ یہ ہمارے خلاف دشمنوں کی سب سے کامیاب سازش ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر لمحہ موجود تک نام نہاد مخلص این جی اوز ہمارے دینی ودنیاوی نصاب تعلیم میں ہر وقت نقب زنی کی کوششوں میں جٹی رہتی ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ این جی اوز اپنے گریباں میں تو جھانکتی نہیں لیکن اپنا سارا زور ہمارے نصاب تعلیم کو ’’بے حیا‘‘ بنانے پر لگایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا معیار تعلیم تیزی سے زوال پذیر ہے۔ ہمارا اس سازش میں اپنا قطعاً کوئی کردار نہیں ہے بلکہ ہم تو بڑی کامیابی سے کُل عالم کو اعلیٰ تعلیم کی ’’اصلی ڈگریاں‘‘ برآمد کر کے لاکھو ں ڈالر ماہانہ کما رہے تھے لیکن پھر بوقت ضرورت کسی ’غدار‘ کی سازش کے نتیجے میں ہم قیمتی زرمبادلہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آبادی کے تناسب سے مطلوبہ تعداد میں سکول، کالج، یونیورسٹیوں کا نہ بننا بھی دشمن ایجنسیاں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔

یہود، ہنود اور نصاریٰ قیام پاکستان سے ہی ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ ہمارے صدیوں پرانے دینی ومعاشرتی اقدا رکو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ یہ سازشیں کبھی فلمی اشتہارات کے بل بورڈز کی صورت میں بے نقاب ہوتی ہیں اور کبھی کبھی جواباً  ان بل بورڈز پر کالی سیاہی پھینک کر ان گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کی کامیاب کوشش بھی کی جاتی ہے اور کبھی زمانہ قدیم میں ٹی وی، وی سی آر کرائے کی شکل میں ملنے پر ان سازشوں کا کچھ حصہ پکڑا جاتا تھا۔

کبھی یہ سازشیں لوگوں کی نظروں سے بچ کر فحش ناول نگاروں کے ناولوں میں سرائیت کر جاتی تھیں، کبھی خواتین کی ڈرائیونگ، لباس یا ملازمتوں کی صورت میں پکڑی جاتی ہیں اور اب موجودہ دور میں تو انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی شکل میں یہ سازش ’’فحاشی کے سیلاب‘‘ کی شکل میں مکمل طور پر آزاد اور عیاں ہو چکی ہے جس کا ہمارے پاس کوئی توڑ بالکل نہیں ہے۔ اب صرف اللہ ہی کا آسرا ہے کہ وہ ہمیں ان بھیانک سازشوں سے بچا کر رکھے۔ کچھ لوگوں کو یہ اچھنبے کی بات لگتی ہے کہ ایک آدھ مسلم ملک کے علاوہ پوری ’’متحد‘‘ امت مسلمہ میں شاید ہی ایسی کسی ’لغو یات‘ پر کوئی پابندی عائد ہوئی ہو اور ان کے عوام کے کردار پر  ان لغویات کا کوئی منفی اثر بھی پڑا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمنوں کی سازشوں کا سارا رخ صرف اور صرف ہماری طرف ہی ہے۔

عوام کو سستے اور فوری انصاف کی عدم فراہمی بھی بین الاقوامی قانون دانوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے۔ اتنا تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قانون سے کون لڑ سکتا ہے کیوں کہ انسانوں کے مقابلے میں قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور ہم ’کمی کمین‘ تو ملک کے ’اعلیٰ‘ قانونی رکھوالوں سے اپنے حقوق کی تفصیلات کی ’’جزئیات‘‘ جاننے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے۔ وگرنہ کسی ناخوشگو ار سوال کے خوشگوار جواب کی صورت میں توہین عدالت کے جرم میں کم از کم ایک ماہ قید بامشقت کے مزے لینے پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے اس قانونی سازش کو سازش کے پردے میں مستقل چھپانے میں ہی ہماری بقا ہے۔

 ایک ہمسایہ ملک کی گہری لیکن ’کھلی ڈلی‘ سازش کے سبب ہمارے ملک میں پانی کی قلت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ تقریباً چھ دہائیاں قبل عالمی دوستوں کی سازش سے ہم اپنے تین اہم دریا چند ٹکوں کے عوض اپنے ازلی دشمن کو بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے اور مزید ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اب یہی دوست قوتیں ہمیں بچے کھچے دریاؤں پر کوئی نیا ڈیم بھی بنانے نہیں دیتیں جس کی وجہ سے ہم اپنا سارا فالتو پانی سیلاب اور سمندر کی نذر کرنے پر مجبور ہیں۔ مزید ستم یہ کہ پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی بنانے کے لیے ان سازشی عناصر سے مہنگا تیل برآمد کرنا بھی ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔

ایک اور خفیہ سازش کے تحت (معذرت سازش تو ہوتی ہی خفیہ ہے) ہماری خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کا عمل بغیر کسی روک ٹوک کے ستر سال سے جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سازش اتنی کامیاب ہے کہ اس سازش کے خلاف حکومت کے سخت اقدامات کے علاوہ ہماری دن رات کی خشوع و خضوع کی عبادتیں بھی قطعاً ہمارا ساتھ نہیں دے رہیں جس کی وجہ سے روز بروز ہماری صحت اور علاج معالجہ کا معیار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے۔ ظاہر ہے ایسی بھیانک سازش کا بنیادی نقطہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے دشمن ہمیں کسی صورت بھی صحت مند اور توانا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ انہیں ہماری دگر گوں حالت سے بھی ہر وقت اپنی جان کو خطرہ درپیش رہتا ہے۔

یہ بھی سراسر طاقتور عالمی برادری کی سازش یا ملی بھگت ہے کہ ہمارے ملک میں غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیرتر کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے جس کی وجہ سے جرائم اور خودکشیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی روپیہ کی قدر بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور مارکیٹ میں کساد بازاری کا عمل بھی بغیر کسی رکاوٹ کے کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ ظاہر ہے اب اتنے پیچیدہ معاملات تو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، اس لیے یہ سب بیرونی قوتوں کی سازش ہی ہو سکتی ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ہم ہرگز ہرگز سکت نہیں رکھتے۔

تو دوستوں حاصل بحث یہ ہے کہ ہمارے خلاف اصلی اور خالص سازش یہ ہے کہ ہم اپنی ہر ناکامی کو دوسروں پر ڈالنے میں ذرہ برابر بھی تردد نہیں کرتے اور نہ ہی کسی قسم کی شرم محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے والے قصے کہانیوں کو سازشوں کا نام دے دیتے ہیں۔ اپنے مخالف کا قصہ سن کر انتہائی خوش و خرم ہوتے ہیں لیکن اپنی ناکامیوں کی کی داستان کو فوراً سازش کا نام دے دیتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک میں 1948ء میں کشمیر کی سازش، لیاقت علی خان قتل سازش، 1965ء میں بھارت کا اندھیرے میں چھپ کر حملہ کی سازش، 1971ء میں ’مکار‘ بنگالیوں کی سازش، 1977ء میں بھٹو کی پھانسی کی سازش، افغان جنگ میں بار بار ملوث ہونے کی سازش، جمہوری حکومتوں کی ’آنیاں جانیاں‘ کی سازش، بے نظیربھٹو کی شہادت کی سازش، کارگل کی سازش، القاعدہ وطالبان لیڈروں کی سرزمین پاک میں شہادت کی سازشیں اور اب آخر میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی سازشوں کا سفر انتہائی کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).