گاڑیوں والے بھکاری اور سیاستدان


میں کریم بلاک اقبال ٹاؤن مارکیٹ کے قریب ہی رہتا ہوں۔ ایک دن ہم شاپنگ کے لیے کریم بلاک شاپنگ سینٹر گئے تھے۔ ایک کورے گاڑی ہمارے قریب آ کر رکی اس گاڑی سے چار خواتین برآمد ہوئیں۔ ان کے کپڑے انتہائی بوسیدہ اور پرانے تھے۔ میری بیٹی نے فوراً پہچان لیا بولی ”یہ تو وہ فقیرنی ہے جو چوک میں خیرات مانگتی ہے۔ شاید وہ جلدی میں تھی اس لیے دفتری لباس میں ہی آ گئی تھی۔ اگر عام لباس میں ہوتی تو شاید میری بیٹی بھی نہ پہچان پاتی۔ وہ خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آئی تھی۔ اس کی ہمراہی شاید کسی دوسرے چوک میں ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دیتی ہوں گی۔

چند دن بعد میں نے گاڑی ٹریفک سگنل پر روکی تو ایک بہت ہی معصوم اور چھوٹا سا بچّہ ہماری گاڑی کے قریب آیا۔ ہم پیشہ ور گداگروں کو خیرات نہیں دیتے تجربہ کار گداگر ہماری گاڑی کے پاس آکر اپنا وقت برباد نہیں کرتے مگر وہ بچّہ نیا تھا اور اتنا پیارا تھا کہ اسے دیکھ کر میری بیوی کا دل پسیچ گیا جھٹ سے پرس کھولا اور ایک نوٹ نکال کر اسے دے دیا۔ اب یہ تقریباً روز کا معمول بن گیا۔ ہم اپنی بیٹی کو چھوڑنے سکول روانہ ہوتے اور چوک میں وہی بچّہ ہمیں مل جاتا تھا۔ اور میری بیگم اسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتی۔ میں نے بارہا روکا کہ تم گداگری میں اضافے کا باعث بن رہی ہو۔ مگر اس کا معمول جاری رہا۔

ایک دن شدید گرمی تھی۔ مجھے کسی کام سے بینک جانا پڑا وہ بچّہ ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ میں بینک کے اندر چلا گیا اور وہ بچّہ مانگنے کے لیے میری بیوی کے پاس آ گیا۔ وہ بھی فارغ تھا اور میری بیوی کو بھی انتظار کا وقت گزارنے کا وسیلہ مل گیا۔ وہ اس سے باتیں کرنے لگی۔ اس بچّے سے میری بیگم نے پوچھا کہ کیا اس کے گھر کوئی کمانے والا نہیں تو اس نے جواب دیا کہ میری امّاں بھی مانگتی ہے ابّا بھی مانگتا تھا۔ میری بیگم نے پوچھا کیا وہ مر گیا؟ بچّے نے جواب دیا کہ مرا نہیں چوری کے چکر میں پولیس پکڑ کر لے گئی ہے پہلے اسی چوک میں مانگتا تھا بیساکھی لے کر، جب اسے پولیس پکڑ کر لے گئی تو امّاں نے اس کی جگہ مجھے لگا دیا دراصل یہ چوک ہم نے خریدا ہے نا اس لیے کسی اور کو نہیں آنے دیتے قبضہ کر لے گا۔ جب سے میں آیا ہوں ہماری کمائی بڑھ گئی ہے امّاں کہتی ہے کہ بچّے اور بڈھے کی کمائی زیادہ ہوتی ہے۔ جب تیرے دادے کو تو تیرا چاچا چھین کر لے گیا تھا تو آمدنی گھٹ گئی تھی۔ اتنے میں اس بچّے کی امّاں نے اسے آواز دی میری بیوی نے مڑ کر دیکھا تو وہی ”کورے“ والی عورت تھی۔

اسی طرح چوکوں کے گداگروں کے ٹھیکیداروں کے بھی اپنے اپنے چوک ہیں اور وہ بدمعاش ان علاقوں کے ٹھیکے گداگروں کے مختلف گروپوں یا کسی انفرادی گداگر کو دیتے ہیں۔ اور اس علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں اور اس علاقے میں ان گداگروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس علاقے میں اگر کوئی دوسرا گداگر آتا ہے تو یہ ٹھیکیدار اس گداگر کو اس علاقے سے نکال دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ غنڈہ گردی کی کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ ان ٹھیکیداروں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ تمام متعلقہ محکموں میں ان کے حصے دار موجود ہیں۔ یہ ٹھیکے بھی اپنی اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔

جب میری بیوی نے مجھے اس بچّے سے گفتگو والا قصہ سنایا تو مجھے ایسے لگا کہ فقیروں اور سیاستدانوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے دونوں اپنا چوک نہیں چھوڑتے۔ قمرالاسلام صاحب اندر ہوئے تو ان کے صاحبزادے اور بیٹی نے سیٹ سنبھال لی۔ کیونکہ اگر سیٹ خالی چھوڑی گئی تو کوئی اور آ کر قبضہ کر لے گا۔ اور یہ قبضہ اگر مستقل ہو گیا تو ان کا چوک ہاتھ سے نکل جائے گا اس لیے چوک کو خالی نہیں چھوڑنا۔ اور میڈیا کے حالات دیکھتے ہوئے دوسری بات بھی سچ ثابت ہو رہی ہے کہ بچّوں کو خیرات زیادہ ملتی ہے۔ اور وہ خیرات میڈیا دل کھول کر دے رہا ہے۔ کیا مسلم لیگ میں اس حلقے میں مسلم لیگ کے لیے کام کرنے والا کوئی سرگرم کارکن نہیں؟ بہت سے لوگ ہوں گے مگر چوک خالی نہیں چھوڑنا۔ کہیں کوئی دوسرا ہمیشہ کے لیے پتّہ نہ کاٹ دے۔

اب دانیال عزیز صاحب نے پابندی کے بعد دوسرا راستہ اختیار کیا کہ انہوں نے اپنے بچّوں کی بجائے اپنے بوڑھے والد اور اہلیہ کو ووٹ مانگنے کے لئے چوک میں کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دیکھیں انہیں اس چوک سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ میڈیا کس حد تک ان کی امداد کرتا ہے۔ اور اگر بھرپور امداد نہ ملی تو کیا انہیں ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کسی بیساکھی کی ضرورت تو نہیں پڑے گی۔ وہ اپنی نا اہلی کے لیے ہمدردی حاصل کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ان کے جرم کا فیصلہ عوام کریں گے۔

اسی طرح ان سیاستدانوں کے ٹھیکیدار یعنی پارٹیوں کے مالکان نے ان کو حلقے یا چوک عنایت کیے ہیں۔ اور اپنی پارٹی کا تاج صرف اپنی اگلی نسل کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ کوئی فقیر جتنی مرضی محنت کرے وہ ٹھیکیدار نہیں بن سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).