پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات اور جنرل باجوہ کا دورہ پولینڈ


جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ پولینڈ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی معاملات کے حوالے سے سنجیدہ طور پر یہ کوششیں کر رہا ہے کہ اس کا سارا انحصار صرف ایک ملک یعنی امریکہ پر نہ رہے۔ بلکہ جن ممالک سے بھی باہمی تعاون کے نتیجے میں مثبت معاہدے ہو سکتے ہیں وہ وقوع پذیر ہو جائیں۔ اس ضمن میں پولینڈ کو پاکستان یہ خاص اہمیت دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود پاکستان اور پولینڈ کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ ان تعلقات کی ابتداء ایک خاص صورتحال میں جنگ عظیم دوئم کے دوران 1942؁ء میں ہوئی۔ جب برطانیہ نے 30 ہزار پولینڈ کے لوگوں کو جو پولینڈ سے حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے کراچی میں ”مہاجر کیمپوں ” میں مقیم کر دیا۔

یہ کیفیت جنگ عظیم دوئم کے اختتام یعنی 1945؁ء تک قائم رہی مگر جنگ کے خاتمے کے بعد بھی پولینڈ کے لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد کراچی میں ہی مقیم رہی۔ قیام پاکستان کے وقت ان میں سے متعدد افراد نے پاکستان کی شہرت اختیار کر لی۔ اور مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی وابستہ ہو گئے۔ اسی دوران پاک فضائیہ کی تشکیل کا مسئلہ تھا تو درجنوں پولینڈ کے پائلٹوں اور ایئر مینوں نے پاک فضائیہ میں 1948؁ء میں شمولیت اختیار کر لی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک فضائیہ کی بنیاد انہی پولینڈ کے پائلٹوں نے رکھی۔ کہ جن میں کموڈور Turowicz کا نام سرفہرست ہے۔ بعد میں انہوں نے سپارکو میں بھی معمار کے طور پر اپنی خدمات فراہم کیں۔

پاکستانی ایئر فورس نے 2006؁ء میں ان کی یاد گار ایئر فورس میوزیم میں رکھی۔ جبکہ سابقہ وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے جو اپریل 2018؁ء میں پولینڈ کا دورہ کیا اس کو بھی دونوں ممالک نے کموڈور Turowicz کے نام سے منسوب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خانؒ نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آغاز کے ساتھ ہی پولینڈ سے روابط قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ اور پاکستان نے 17دسمبر 1962؁ء کو کمیونسٹ پولینڈ سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ پاکستان پہلا مسلمان ملک تھا جس نے یہ اقدام کیا۔

پاکستان کی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے بھی گزرا ہوا ایک واقعہ پولینڈ سے ہی وابستہ ہے۔ جب پولینڈ کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقعہ پر 17نومبر 1970؁ء کو ان پر کراچی ایئر پورٹ پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں پولینڈ کے نئے وزیر خارجہ قتل ہو گئے۔ جبکہ تین پاکستانی بھی راہی ملک عدم ہو گئے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ قاتل کو یہ پڑھایا گیا تھا کہ سوشلسٹوں کو قتل کرنا عین جنت کا راستہ ہے۔ سو انہوں نے سرکاری وین ان افراد پر چڑھا دی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قتل و غارت گری کی چنگاریاں اسی وقت جلا دی گئی تھی جو اب آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔

2005؁ء کے زلزلے کے موقعہ پر بھی پولینڈ نے افرادی قوت کے طور پر پاکستان کی بحالی میں بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی۔ پاکستان کے امریکہ سے سرد ہوتے تعلقات کی وجہ سے پاکستان نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کی غرض سے متبادل ذرائع کی جانب توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں پولینڈ کو پاکستان اس وجہ سے اہم مقام دے رہا ہے کہ یہ چھوٹے ہتھیاروں اور دفاعی ہتھیاروں کے حوالے سے پولینڈ کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت اور 60کمپنیاں موجود ہیں۔ جبکہ ان ہتھیاروں کی صلاحیت جو پولینڈ تیار کر رہا ہے کسی طور پر بھی مغربی ممالک کے بنائے ہتھیاروں سے کم نہیں ہے۔

پاکستان پولینڈ کی مدد سے دفاع کے ماڈرن معیارات تک پہنچنا چاہتا ہے۔ ہیوی مشین گنوں، نائیٹ ویثرن پاکستان کے الخالد ٹینک ٹو، ڈرون جہازوں، ریموٹ کنٹرول ہتھیاروں کے حوالے سے پولینڈ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ کامرہ وغیرہ میں پولینڈ کے تربیت یافتہ افراد آ کر تربیت فراہم کریں۔ جبکہ پاکستان کے فوجی افسران پولیش ملٹری سکولوں میں تربیت حاصل کریں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورے سے پہلے ہی پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفود پولینڈ کا دورہ بالخصوص گذشتہ سال سے کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں سابق وزیر رانا تنویر حسین نے گزشتہ سال پولینڈ کا دورہ کیا اور ان امکانات پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا جو کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ نے دورہ کیا جبکہ پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کے حکام نے بھی دورے کیے۔

ان تمام دوروں کا مقصد سابق وزیر رانا تنویر کے دورے کے ذیل میں امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے تھا۔ اس کے بعد پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل سہیل امان نے پولینڈ کا دورہ کیا اور ان کے دورے سے یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان اعلیٰ ترین فوجی حکام کو بھی ان معاملات میں حتمی شکل دیتے ہوئے کلیدی حیثیت پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ گزشتہ اپریل میں سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی پولینڈ کا دورہ کیا اور انہوں نے اپنے دورے کے دوران گزشتہ 5 سالوں میں پاکستان کی کامیابیوں جو ان کے دور حکومت میں ہوئیں بھی گنوائیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشی ترقی، جمہوریت کے تسلسل اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ جن کو تسلیم بھی کیا گیا۔

اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ دفاعی معاہدہ بھی کر لیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ درحقیقت ان مستقل اقدامات کا ہی تسلسل ہے جو کہ گزشتہ 2/3 برسوں سے ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے روس کا بھی اپریل میں دورہ کیا تھا۔ تا کہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نئے دروا کیے جا سکیں۔ اور ان سب کے لئے منصفانہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).