مرد کیا عورت بھی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی!


وہ لوگ جو یورپ میں مقیم ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یورپ میں مرد کیا عورت بھی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کسی بوڑھی عورت یا بوڑھے مرد کو انکل، چاچا، ماما، تایا، بزرگو، بزرگوار، نانی، چاچی’ اور آنٹی وغیرہ نہیں کہا جاتا۔ آپکی عمر پچاس سال ہے یا ساٹھ یا ستر یا اسی سال، آپکو ہر کوئی آپکے نام سے ہی پکارے گا۔ اگر کوئی اجنبی ہے تو پہلے نام پوچھے گا اور پھر اسی نام سے آپ سے گفتگو کرے گا اور یہاں مرد تو مرد عورتیں بھی اپنی عمر نہیں چھپاتی۔ آپ کسی بھی جوان یا بزرگ مرد یا عورت سے بات کریں تو وہ اپنا تعارف اپنے نام سے شروع کریں گے روائتی حال چال کے بعد موسم اور پھر بلاججھک اپنی عمر بتا کر اپنی بات جاری رکھیں گے۔

ادھر ہم پاکستانی ہیں کہ مرد چالیس سال کا ہوا نہیں اور وہ انکل بنا نہیں۔ اور غصہ اس وقت آتا ہے جب آپ سے بڑی عمر کا مرد یا عورت بھی آپ کو انکل کہہ کر آپ کے جذبات پر پانی پھیر رہا ہوتا ہے۔ بقول مستنصر حیسن تارڑ صاحب کے (کیونکہ یہ بات انہیں سے منسوب ہے)، کہ جب ایک ہوائی سفر کے دوران ایک خوبرو ایئر ہوسٹسس بار بار انکے پاس آ کر کہہ رہی تھی کہ چاچا جی اور کوئی خدمت ؟ کوئی اور چیز تو نہیں چاہیے تو آخر تنگ آکر انہوں نے ائیر ہوسٹس سے کہا کہ کڑیئے ! خواہ تم مجھے چاچا کہو یا دادا، نیت میری نہیں بدلنی۔

جی پتہ نہیں ہم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ مرد جب پچاس ساٹھ کا ہو جاتا ہے تو اسے پھر سرپر ٹوپی، چہرے پر داڑھی اور ھاتھ میں تسبیح پکڑ کر مسجد کی راہ لینی چاھیے۔ ٹی وی پر صرف مدنی چینل، قران چینل یا اسلام چینل کو ہی دیکھنا چاہیے اور ہر وقت اپنے اوپر سنجیدگی طاری کرکے پندو نصائح کا ٹھیکہ لے لینا چاہیے اور اگر ہو سکے تو تبلیغی جماعت کے ساتھ کم از کم چالیس روزہ چلّہ لازمی لگالینا چاھیےتاکہ اگلے جہاں میں مولاناطارق جمیل کی بیان کردہ حوروں میں سے کچھ حوروں کی بُکنگ پکی ہوسکے۔

ابھی حال ہی میں ایک برطانوی تحقیق کے مطابق 70 سے 80 سال کے جوڑے بھی اپنی ازدواجی زندگی سے پھر پور لطف اٹھاتے ہیں مگر پاکستان میں کسی بزرگ کا 60 سال کے بعد تو ایسا سوچنا بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ کہ شرم نہیں آتی کہ ایک تو اتنا بڈھا کہ قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور ابھی بھی شادی کی خواھش رکھتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں شمالی علاقہ جات کے کچھ علاقے جیسے بلتستان وغیرہ کے بارے میں شنید ہے کہ وہاں کوئی بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت فارغ نہیں بیٹھتی بلکہ اپنا شریک حیات چھن جانے کے بعد انکی اولاد ہی انہیں پھر بیاہ کر اپنا فرض ادا کردیتی ہے۔ جبکہ پنجاب سے لے کر کراچی تک تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہےان میں سے شائد ہی کچھ دبنگ قسم کے بزرگ ہوتے ہیں جو اپنی دبی خواھش کا اظہار کھل کر کرتے ہیں اور موقع ملے تو شادی سے گریز بھی نہیں کرتے۔ مگر ایسے جری و بہادر بزرگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تو کیا اس اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ بزرگ عمر کے آخری حصے میں صرف شکائیتیں کرنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔ یا ایف آئی آر میں مردانہ موت کی رپورٹ کے لیے۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ایک دیہاتی بزرگ کی خفیہ موبائل وڈیو،واٹس ایپ پر وائرل ہوئی جس میں وہ بزرگوار کسی جانور کے ساتھ اپنا شوق جنوں پورا کررہے ہیں۔ بظاہر اس ویڈیو کو دیکھ کر بندے کی بے اختیار ھنسی چھوٹ جاتی ہے۔ مگر غور کیا جائے تو یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم نے بوڑھوں کو جذبات و احساسات سے عاری ایک ایسا سماجی جانور سمجھ لیا ہے جو بس دوسروں کو دعا دے یا پھر سر پر ھاتھ پھرکر آشیر باد دے یا برطانیہ کی ملکہ کی طرح نوجوان جوڑوں کی شادی کی رسمی منظوری دے۔ مگر اس کے اپنے ساتھ کیا بیت رہی ہے ؟ہم نے کبھی اس کے بارے سوچنے تک کی زحمت نہیں کی۔

کافی عرصہ پہلے میں نے گورنمنٹ کے گریڈ فور سے لے کر گریڈ چودہ تک کے ریٹائرڈ بوڑھوں کی زندگی پر ایک تحقیق کی تو وہ بزرگ جنکی شریک حیات فوت ہوچکی تھی ان میں سے 85 فصد نے دوبارہ شادی کی خواھش کا اظہار اگر چہ ان میں سے 35 فیصد نے پس وپیش اور گردوپیش دیکھ کر اقرار کیا۔

اسی ضمن میں مجھے ایک دوست کی زبانی، انکے گاؤں کے ایک 80 سالہ سید بزرگ کا قصہ یاد آ گیا جن کی بیوی عرصہ دراز پہلے وفات پاچکی تھیں۔ اور وہ پھر بھی باھمت اتنے تھے کہ جب بھی انکے گاؤں یا کسی قریبی علاقے میں کوئی جوان مرد فوت ہوجاتا تو وہ عموماً رسم قُل والے دن لاٹھی ٹیکتے ہوئے خراماں خراماں صف ماتم پر پہنچ جاتے اور پھر بیوہ کو بلا بھیجتے۔ وہ بیوہ، ان سید صاحب کے احترام میں انکا پُرسہ لینے، سر ڈھانپ کر اپنا غمزدہ چہرہ لے کر انے پاس آتیں تو پہلے 80 سالہ سید صاحب اس جوان بیوہ کے سر پر ھاتھ پھیرتے، پھر اس کے خاوند کی تعزیت اس طرح کرتے”تمہارا مرد بڑی اچھی روح تھا، اللہ اسے بخشے، اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ مگر کیا کیا جائے، اللہ کے حکم کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اور پھر ابھی تو تہماری پہاڑ جیسی زندگی آگے پڑی ہے۔ تو اسے بھی تو گزارنا ہے تو میری تم کو نصیحت ہے کہ تم حضرت فاطمۃالزھرہ کی بہو بن جاؤ۔۔۔ (چونکہ بزرگ سید تھے اور اپنا نسب حضرت علی اور حضرت فاطمہ سےجوڑتے تھے)۔ یہ سن کر تازہ تازہ بیوہ جس کا ابھی غم بھی تازہ ہو وہ یقیناً ہکا بکا رہ جاتی مگر وہ کیا کہہ سکتی تھی کہ ایک تو وہ 80 سالہ بزرگ اوپر سے ”سید” اب اس ڈبل احترام میں نہ کوئی کچھ کہہ سکتا نہ غصے کا اظہار کرسکتا تھا۔ بس وہ بیوہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتی۔ مگر بزرگ تھے کہ دُھن کے پکے تھے ہر تازہ تازہ ہونے والی بیوہ سے پوچھنا اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔

مقصد یہ کہ کسی بھی بزرگ کو ہلکا مت لیجیے گا۔ جوں جوں عمر گذرتی جاتی ہے کسی جوان لڑکی یا اگر وہ میسر نہ ہو تو کوئی بھی مل جائے بس وہ دھندلی سی خاتون بھی لگتی ہو تو انکی خواھش ٹھرک دوآتشہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب مغرب میں تو” شوگر ڈیڈی” کے نام سے بزرگ کسی نوجوان، یونیورسٹی کی لڑکی سے تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔ مرد تو مرد وہاں کی بوڑھی عورتیں بھی اپنے اعضاء مخصوصہ کو آپریشن کے ذریعے بحال کرواتی پھرتی ہیں کہ اپنے جنسی عزائم بھرپور طریقے سے پایہ تکمیل تک عمر کے اس حصے میں بھی پہنچا سکیں۔

مگر پاکستان میں بزرگ پھر کیا کریں؟ کیونکہ بزرگوں کی بڑھتی عمر کے ساتھ انکی خواہش تو کم نہیں ہوتی۔ آپ کم تعلیم یافتہ بزرگوں کو ابھی ایک طرف رکھیں بلکہ ایک نظر یونیورسٹی میں پڑھانے والے بزرگ اساتذہ کو دیکھ لیں جن کی قابلیت سے اکثر لڑکیاں متاثر ہوجاتی ہیں وہ ان جوان لڑکیوں میں سے، کم از کم ایک اور شادی کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے اور اگر حوصلہ ہو تو (ان کے نزدیک انصاف ضروری نہیں ہوتا) بقول ہمارے ایک محروم استاد محترم کہ میں ہر اس جوان خاتون سے شادی کا خواھش مند ہوں جو صاحبِ روزگار ہو اور صاحبِ۔۔۔۔ ہو۔ (خالی جگہ خود پُر کرلیں)

اسی لئے تو یہ تاثر عام ہے کہ یونیورسٹیز میں بعض پروفیسر تو زندہ ہی اپنی جوان شاگردان عزیزکی وجہ سے ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ ریٹائر ہوتے ہیں تو آناً فاناً فوت ہوجاتے ہیں۔ اب یہ تو رسائی کی بات ہے کہ کون کس حد تک آگے جانے کی قوت، تجربہ اور حوصلہ رکھتا ہے؟ اور کچھ نہیں تو ٹھرک دور سے بھی جھاڑا جا سکتا ہے۔ یہاں نوٹس، اسائنمنٹ، امتحان کے دوران جوان لڑکیوں کو اکیڈیمک امتحانات کے علاوہ بھی کئی دوسرے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہر لڑکی ان ٹھرکی اساتذہ کے ھاتھوں بلیک میل ہوجاتی ہے۔ مگر سینئر استاد، کئی ایک کو ٹٹولتا ہےاور پھر ریسپانس دیکھ کر ہی ھاتھ ڈالتا ہے۔ جبکہ جوان اساتذہ جلد پن میں، جلد پکڑ میں آجاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تجربہ کار اساتذہ ٹھنڈی کرکے کھاتے ہیں۔ (اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں مختلف یونیورسٹی اور دیگر نجی تعلیمی مخلوط اداروں میں سامنے آنے والے اسکینڈل اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔

اسی طرح، جنسی کارکنوں پر کی گئی کئی تحقیقات کی روشنی میں یہ واضع ہوچک ہے کہ انکے اچھے اور سنجیدہ گاھک، ادھیڑ عمر ڈاکٹر، انجیئر، بیوروکریٹس یا دیگر شعبوں کے افسران سے لے کر وہ کاروباری طبقہ ہوتا ہے جو دوسری شادی، شرم، اولاد یا کسی اور معاشی و معاشرتی وجوھات کی بنا پر نہیں کر پاتے تو وہ اپنی لامحالہ جنسی خواھشات کو ”چُپ چپیتے” متبادل ذرائع سے پورا کرلیتے ہیں۔ لہذا اس ساری بحث کو اگر سمیٹا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بزرگوں کو صرف احترام کے چبوترے پر بٹھانے کی بجائے انکے جذبات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ نہ کرسکیں تو اس بذرگ کی طرح میڈیکل اسٹور سے ”ویاگرا” لینے چلیں جائیں کہ چلیں اور کچھ نہیں تو دھوتی میں رونق تو لگی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).