طاقت کی گھنٹی اور گھمنڈی بلیاں


جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں ایک جانب سیاسی پارٹیوں سمیت معاشرے میں ایک بے دلی اور مایوسی کے آثار واضح ہوتے جارہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب غیر جمہوری اداروں کا عوام اور ان کے اذہان پر تسلط جو کہ ہے تو برسوں سے مگر دور حاضر میں مزید خوبصورتی سے بڑھتا ہوا ظاہر ہورہا ہے۔ جمہوریت کے لئے اس دور کو ایک کڑا وقت گردانا جارہا ہے مگر میرے اس پر بھی ایک دو سوال ہیں۔

کل ہی ایک استاد سے اس پر بات ہورہی تھی کہ ہم تاریخ کے ایک دور کا موازنہ دوسرے سے ان ادوار کے مخصوص ڈائینامکس کو اگنور کرتے ہوئے کریں تو یہ تاریخ اور عوام دونوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔ ہم مشرف کے کرسی چھوڑنے سے شروع کر لیتے ہیں۔ اس وقت کے حالات فوج اور ملک پر بہت بھاری پڑ چکے تھے حتا کہ فوج کے اندر کے ایک خاص دھڑے کو لیڈ کرتے جنرل کیانی بھی یہ چاہتے تھے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

زرداری صاحب کے صدارت کی کرسی پر بیٹھنے سے اس تاثر کو کچھ طاقت ملی کہ ملک میں جمہوری دور کا ایک بار پھر سے آغاز ہوگیا ہے۔ اب آمریت کو نہیں آنے دیا جائے گا، جمہوریت پھلے پھولے گی اور فلاں فلاں۔ مگر دیکھا جائے تو پھلتا پھولتا تو کچھ اور ہی رہا۔ چلیں یہ بتا دیجے کہ جمہوریت نے اسد درانی کے خلاف کارروائی میں کس قدر رول ادا کیا۔ معاملہ کہاں سے ہوکر کہاں گُم ہو گیا کیا یہ بھی بتانے کی مزید ضرورت ہے؟ تو جناب کینڈی لینڈ جمہوری پاپ کے شیدائی آج یہ بھی تو مان رہے ہیں کہ ملتان میں خلائی مخلوق نے کس طرح سے ان کے امیدوار کو ڈرایا اور دھمکایا۔ راجن پور سے ان پارٹی امیدواروں جنہوں نے ایک تجزیہ کار کے مطابق لائن میں لگ کر ٹکٹ لئے کس طرح سے یکدم آزاد سیٹس پر الیکشن لڑنے کا مشترکہ فیصلہ کرلیا۔

یہ ایک خاص طرح کا تسلط ہے جو کہ نگران سیٹ اپ سے لے کر سیاست کے ہر کونے کھدرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس طاقت کو لے کر سب بے بس نظر آتے ہیں۔ طاقت کی گھنٹی جس بلی کے گلے میں باندھی جارہی ہے انہوں نے بھی تاریخ یقیناً پڑھ رکھی ہوگی جو یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ گھنٹی اتار کر سولین کی طاقت کی اصل اوقات دکھا کر گھر بھیجنے میں دیر ہی کتنی کو لگتی ہے۔ گھر زندہ سلامت بھیجا جاتا رہا یا چند گز کی گندی چادر میں لپیٹ کر ہمارے ہاں سب طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔ وہ لوگ بھی طاقت کی گھنٹیاں پہنا کر لائی گئی گھمنڈی بلیاں تھیں، کچھ تھیں اور کچھ ہیں۔ میں مرحوم بھٹو صاحب اور نواز شریف کا ذکر کر رہا ہوں۔

آج بھی یہ حال ہے کہ نواز حکومت جانے کی دیر تھی، تمام تر طاقت کا مرکز اسٹیبلشمنٹ کا صحن بن چکا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سے لے کر خاص طور پر پنجاب اور عمومی طور پر تمام ملک بھر کی بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرکے معلوم نہیں کیا کھچڑی بنا دی گئی ہے۔ ہاں مگر اس بات کی گارنٹی ایسی کونسی چیز ہے کہ جس سے کنفرم ہوجائے کہ یہ کھچڑی کھانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ کے دیرینہ درد کو آرام آجائے گا۔ ابھی تک تو سب کچھ پلان کے عین مطابق چل رہا ہے۔ میں حیران اس بات پر ہوں کہ عوام کو جمہوریت کے جبکہ خود کو طاقت کے اصل ٹیکے لگانے والی یہ طاقتوں نے اس قدر زبردست کنٹرول حاصل کرلیا ہے کہ کچھ لوگوں کا تو دل شاید یہ کر رہا ہو کہ حکومت دیکھی جائے گی فی الحال احتساب کی گیم کو مزید انجوائے کیا جائے۔

اس شور شرابے میں اصل آزادی کی ڈگڈگی بجاتے فیض صاحب کی وہ تحاریر ستر سال سے ایک ہی رونا رو رہی ہیں کہ غریب کو غربت اور مسائل سے آزادی دو۔ وہ غریب ووٹر جس کو گھر سے ووٹنگ اسٹیشن پہنچتے پہنچتے یہ سوچنے پر مجبور کردیا جاتا ہے کہ الیکشن سے ایک دن بعد جب وہ سوکر اٹھے گا تو وہ ایک ایسی جنت میں آنکھ کھولے گا جس میں اس کی وہ تمام حسرتیں پوری ہوں گی جو آزادی کے بعد سے اب تک اکٹھی کرتا آیا ہے۔ دراصل اس غریب کو اگلی صبح اٹھ کر گھر کے گھر کے راشن کی فکر نہیں ہونی یہی اس کی جنت ہے۔ اس میں مزید رعایت یہ کی جا سکتی ہے کہ اس کے پانچ سال پہلے وفات پائے ہوئے کسی دور کے عزیز کی فاتحہ پڑھ لی جائے اور افسوس کےاس عالم میں ناک پسور کر یہ کہنا کہ خوشی ہو یا غم خیر سب سانجھے، ووٹ پھر کہیں اور نہیں جانا چاہئیے۔ جی چوہدری صاحب کے علاوہ مجھ جیسا غریب آدمی وہاں کچھ کہنے کی جرات بھی کیسے کرے گا۔ آجکل ملکی سولینز کی حالت بھی تو کچھ ایسی ہی ہے۔

اس ڈر اور خوف کے ماحول میں ایک آواز جو ہمیشہ گرجتی سنائی دیتی تھی بہت یاد آرہی ہے۔ عاصمہ جی نے سویلین سپریمیسی کا راگ الاپتے اس قوم کو وہ شعور دینے کی کوشش کی جس کا قرض کبھی نہیں اتارا جاسکتا۔ ہاں مگر ملکی منظرنامے میں مزاحمتی آوازوں کی گونج الیکشنز میں بھرپور انداز میں سنائی دینا ایک بہتر کل کی نوید ہے۔ جبران ناصر، عمار راشد اور عصمت شاہ جہاں کی طرح کے اور بے شمار ایسے نام جو بائیں بازو کی جدوجہد کی سیاست کرتے آئے، ورکنگ کلاس اور سب سے زیادہ پسے ہوئے طبقوں کے لیے ایک امید ضرور ہیں۔ خاص کر ایک ایسے وقت میں اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جب کہ پارلیمنٹ میں الیکٹیبلز کو ادھر ادھر سے کھینچ کر گنتی پوری کی جارہی ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں الیکٹیبلز خود بھی پریشان نظر آرہے ہیں کہ اس بار انویسٹمنٹ اتنی نہیں ہے جتنا کہ سرکار کا سر پر ہاتھ، نئے پاکستان کی سختیاں کہیں ہم پر ہی نہ پڑ جائیں۔ تمام ایسے الیکٹیبلز کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل ان کو لایا ہی موجودہ سسٹم کو بچانے کے خاص مقصد کے لئے جارہا ہے تو اس سے بھلا نقصان کیسا ہونا۔ سب مل بانٹ کر ہی تو کھانا ہے۔ باقی بلی جب تک میاوں ہی کرے گی تو بھلی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).