قصہ بس کی گمشدگی کا


علی الصبح آنکھ کھلی تو یاد آیا کہ اب تک کا سب سے ضروری کام تو آج ہی کرنا ہے تو جلدی جلدی پانی کی چند چھینٹیں منہ پرماری اور استری شدہ کپڑوں میں گھس گئے، جرابیں جیب میں اور پیرجوتوں میں گھسیڑ کر جلدی جلدی بس اسٹاپ کی جانب دوڑ لگادی کہ لامحالہ کہیں جامعہ کا پوائنٹ ہی نہ چھوٹ جائے اور ہم اصل پوائنٹ سے محروم ہوجائیں۔

جامعہ کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو دیکھا ایک جمع غفیر آنکھوں میں امید لیے یہاں وہاں ٹھل رہا ہے۔ کچھ شناسا چہروں کو دیکھا تو جھٹ سے دھیمے چلتے پوائنٹ سے چھلانگ لگادی کہ شاید انہیں جن کا انتظار ہے وہ ہم ہی ہیں۔ منتظر نگاہوں والے شناسہ چہروں تک پہنچے امید تھی کہ ہمیں دیکھ کر چہرے پر رونق آجائے گی اور ہمیں گلے لگا کر خوش آمدید کہیں گے لیکن ہمیں دیکھ کر پریشان چہرہ سپاٹ ہوگیا سوچا ہوگا چلو اب موصوف آگئے ہیں تو پریشانی کا طوق ان کے گلے میں ڈال کرآرام فرماتے ہیں لیکن ہم بھی کوئی کم بلا نہیں جس کے پیچھے لگیں اس کو کسی کے پیچھے چھپنے کا موقع ہاتھ نہیں آتا۔ ہم نے شناسہ چہرے سے اس پریشانی کا سبب دریافت کیا جو چند لمحوں پہلے تک ان کے چہرے پر رقص کررہی تھی گویا ہوئے جس بس نے ہمیں لے کر خوابوں کی وادی میں جانا ہے وہ نہیں آئی۔ کیا؟ ہمارے حلق سے ایک زور دار چیخ نکلتی نکلتی رہ گئی، یعنی اتنی گرمی میں جب سورج بچپن کی کہانی والے کسی اژدھا کی مانند ہمارے سروں پر مسلسل آگ کے گولے داغ رہا ہے ہماری دوڑ بھاگ سب رائیگاں ہوجائے گی اور جس پول میں تیراکی کرنے کے خواب دیکھنے کی خاطر ہم نے رات زبردستی نیند میں گزاری تھی وہ خواب ہمیں شرمندہ کر جائے گا؟

جامعہ کا تفریحی پروگرام جتنی فرصت اور منصوبہ بندی سے ترتیب دیا گیا تھا اس میں ایسا ہونا فطری تھا بلکہ ہماری نظر میں ایسا نہ ہوتا تو ہمیں اپنے ہر کام کو آخری وقت تک گھسیٹنے کے فلسفے کو مجبوراً خیر آباد کہنا پڑتا بلکہ خیر برباد کہنا پڑتا۔ اس سے پہلے کہ ہم ان جناب سے بس کی بابت کچھ دریافت کرتے پتہ چلا کہ بس پنکچر ہوگئی ہے اور ہمیں بس کے دیدار خاطر بس تک مارچ کرنا پڑے گا۔ اس جھلسا دینے والی گرمی میں مارچ؟ میاں کیا سٹھیا گئے ہو؟ ہمارا خواب پول میں نہانے کا ہے پسینے میں نہیں، ہم سے نہیں ہوگا مارچ وارچ۔ ہم نے تو منہ پر ہی کہہ دیا پر ہمیں ڈر تھا کہ دل سے بھی زیادہ قریب احباب ہمارے دل کی صحت خاطر ہمیں زبردستی مارچ کروا کے ہی چھوڑیں گے

تاہم خوش قسمتی سے بس کے پنکچر والی خبر محض افواہ ہی نکلی۔ دل کو تسلی ہوئی کہ بس پنکچر نہیں لیکن اب دھڑکا لگا کہ بس پنکچر نہیں تو کہاں ہے؟ پتہ چلا بس اڈے سے ہی برآمد نہیں ہوئی ہے، کیا؟ یعنی اب بس اڈے تک مارچ کرنا پڑے گا، بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا، ہم نے قدرے بلند آواز میں چیخنے کی کوشش کی، ویسے چیخیں بلند ہی ہوتیں ہیں پرہم جیسے سورماؤں کی چیخیں اکثر خاموش ہی ہوتی ہیں جنہیں ہم خود بھی سننے کے بجائے محسوس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہر کیف بس کے اڈے والی بات ہمارے ذہن پر اثر کر گئی کچھ گرمی کا زور تو کچھ چلنے کا خوف ہم نے تو پکنک سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا تھا ہم تو سوچ رہے تھے خوامخواہ غیرنصابی سرگرمی کے چکر میں اصلی حساب کتاب کی خاطر اصل امتحان گاہ کی جانب پرواز نہ کرجائیں۔

بس کے اڈے سے برآمد نہ ہونے والی خبر بھی جھوٹی نکلی اب تو جتنے منہ اتنی باتیں کوئی کہتا بس اڈے پر چھاپہ پڑا ہے اور منشیات برآمدگی کے الزام میں اڈہ مالک سمیت اڈے پر موجود تمام افراد کو پولیس مہمان خانے کی سیر خاطر ساتھ لے گئی ہے۔ کوئی کہتا نہیں نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ بس راستے میں ہے بس ڈرائیور آجائے تو بس اڈے سے روانہ ہوگی لیکن بس راستے میں ہے۔ میاں کیا گرمی میں واقعی سٹھیا گئے ہو؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ بس ڈرائیور نہیں آیا ہے اس لیے بس اڈے سے برآمد نہیں ہوئی ہے خدا نے زبان دی ہے تو کیا چپڑ چپڑ چلاتے ہی رہوگے، ہمارا یہ سب کہنے کو دل تھا لیکن پھر ننھی جان کا خیال آگیا، اپنی ننھی جان کا، مسٹنڈے کا کیا پتہ ساری گرمی ہم پر ہی نہ نکال دیتا۔

ایک صاحب تو اتنی دور کی کوڑی لائے کہ کوئی جواب ہی نہیں کہنے لگے ڈرائیور کو زچگی ہوئی ہے، بہ یک وقت دو درجن سے زائد افراد کی چیخیں اور اتنے ہی افراد کے قہقہے بلند ہوئے، کچھ پردہ نشینوں کی پھٹی آنکھیں نقاب کے چلمن سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہی تھیں لیکن نقاب کی اوٹ میں وہ ضرور زیر لب مسکرا رہی تھیں۔ اب ہم سے برداشت نہیں ہوا کہہ ہی پڑے مان لیا کہ جناب کا تعلق سائنس سے نہیں فنون لطیفہ سے ہے لیکن سائنس سے اتنا نابلد بھی کیا ہونا کہ خود ہی لطیفہ بن جاوے آدمی؟ اچھے بھلے ڈرائیور سے متعلق کیا بک رہے ہو؟ اس میں بکنے کی کیا بات ہے ڈرائیور کے گھر ننھا مہمان آیا ہے ڈرائیور کی گھر والی اسپتال داخل ہے وہ بھی وہیں موجود ہے۔ یقین جانیے بس ابھی تک نہیں آئی تھی لیکن اس کے جواب سے ہمیں کم از کم راحت ضرور نصیب ہوئی۔

ڈرائیور کی زچگی کا معاملہ تو حل ہوگیا تھا تاہم بس کی گمشدگی کا معاملہ ابھی تک منہ چڑا رہا تھا۔ کچھ بہی خواہوں نے مشورہ دیا کہ تھانے میں بس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرا دیتے ہیں، ہم نے کہا اچھا تھانے دار کو کیا کہو گے کہ ہماری پکنک کے لئے آنے والی بس گمشدہ ہوگئی ہے؟ ہاں ہاں یہی کہیں گے۔ اچھا اگر اس نے بس کا رنگ اور نمبر وغیرہ طلب کرلیا تو کیا کرو گے؟ بس کا نمبر ہے تمہارے پاس؟ بس کا نمبر نہیں تو کیا ہوا بس ڈرائیور کا نمبر تو ہے وہ ہی درج کروا دیں گے۔ کیا کہا؟ بس ڈرائیور کا نمبر ہے تو اسی سے دریافت کرو کہ وہ کہاں ہے؟ یار دوستوں کو ہمارا مشورہ پسند آیا اور بس ڈرائیور کو فون کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی گئی۔ ایک سوالنامہ تیار کیا گیا کہ ڈرائیور سے کیا کیا سوالات پوچھیں جائیں گے اور کس طور بات کرنی ہے، کلاس مانیٹر ہمیشہ کی طرح ناک سکوڑے فون ہاتھ میں تھامے لڑکے کو ہدایات جاری کررہی تھی کہ آواز کو زیادہ بلند نہ کرنا اورنہ ہی اتنی دھیمی کرنا جتنی تم پریزینٹیشن کے وقت کرلیتے ہو، ایک زوردار قہقہہ لیکن مانیٹر کی غضب ناک نگاہ سے قہقہہ خود ہی سہم کر خاموش ہوگیا۔

بس ڈرائیور کو فون کیا گیا سب شدت سے انتظار میں تھے کہ فون کرنے والا لڑکا کیا خبر لاتا ہے۔ پہلی گھنٹی بجی، پھر دوسری اور پھر تیسری رنگ گئی، فون کی ہر بیپ پر سب اپنی دل کی دھڑکن سن سکتے تھے ایسے جیسے خدانخواستہ ڈرائیور بیچارہ واقعی اسپتال داخل ہے اور سب مشین پر ٹونٹ ٹونٹ سن رہے ہیں۔ فون کی ٹونٹ ٹونٹ نے ماحول آپریشن تھیٹر کا ہی بنا دیا تھا خیر ساتویں گھنٹی پرفون اٹھا لیا گیا۔ وقت کے ساتھ سب کی دھڑکنیں بھی ساکت ہوگئیں، ہوا یکدم تھم گئی اور پرندوں نے خاموشی اختیارکرلی جیسے وہ بھی گفتگو سننا چاہتے ہوں، آس پاس گزرتی گاڑیاں بھی گونگی ہوگئیں کہ وہ بھی اس لمحے میں خلل ڈالنا نہیں چاہتی تھیں۔ پٹھان ڈرائیور کی آواز بلند ہوئی، ہالو کون؟ جی میں بات کررہا ہوں۔ میں کون؟ مذاق کرتی ہے ایک تو ام یہاں جامعہ میں ڈپارٹمنٹ پر کھڑا بچہ لوگ کا انتظار کر رہا ہے اور تم ام کو تنگ کرتی ہے۔ کوئی خدا کا خوف ہی نہیں اتنی دھوپ میں ام کو بلا کر سب غائب ہو گیا ہے، ہیں؟ یعنی ہم یہاں دروازے پر اور ڈرائیور جامعہ کے اندر ڈپارٹمنٹ کی عمارت کے پاس ہمارا انتظار کر رہا ہے؟ شکریہ شکریہ ڈرائیور بھائی شکریہ شکریہ۔ ارے ارے شکریہ کیوں ام کو پاگل سمجھا ہے او خوچہ تم ہے کو۔ اور فون کاٹ دیا گیا۔

جامعہ کے مرکزی دروازے پر سب ایسے چیخ رہے تھے جیسے پاکستان نے ورلڈ کپ فائنل میں بھارت کو شکست دیدی ہو۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دی جارہی تھی جیسے انتیس کو چاند دیکھ لیا ہو۔ کسی نے تو پکنک کے لیےلائی گئی چاکلیٹ ہی نکال لی اور سب کے منہ میٹھے کرانے شروع کردیے۔ پگھلی ہوئی چاکلیٹ سے ایسے خوشی خوشی منہ میٹھا کرایا جارہا تھا جیسے جامعہ کی محبت کامیاب ہوگئی اور جامعہ میں ہی منگنی کی رسم کی ادائیگی کی جارہی ہو۔ سب ہنسی خوشی بلکہ اتاولے پنے میں دیوانہ وار جامعہ کے اندر دوڑے جارہے تھے۔ ارے رکو بات تو سنو۔ ارے ہماری بات تو سنو۔ ارے کوئی تو سن لو۔ ہم چیختے رہے اور سب دوڑ کر چلے گئے، کم عقلوں کو سمجھ نہیں آئی کہ ڈرائیور بس کو جامعہ سے اڑا کر نہیں لے جائے گا اور نہ پکنک پوائنٹ جامعہ کے اندر ہے، فارم ہاؤس جانے کے لئے ڈرائیور کو بس اسی دروازے سے باہر لانی ہوگی تو خوامخواہ کیوں تھک رہے ہو یہیں صبر کرو جب بس آجائے تو آرام سے بیٹھ جانا لیکن کسی نے ہماری ایک نہ سنی اور رفو چکر ہوگئے۔

سید تابش کفیلی
Latest posts by سید تابش کفیلی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).