پاکستان میں علمی بددیانتی،فلسفیانہ تجزیہ 


پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ یہاں کی پچاس فیصد آبادی تعلیم سے محروم ہے، یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ جو نام نہاد تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں وہ بھی جہالت اور تاریکی کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ ان پڑھ افراد سے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں، اسی وجہ سے معاملات تیزی سے بد سے بدترین ہورہے ہیں۔

تعلیم یافتہ افراد کے قلم اور زبان سے نکلتے ہوئے الفاظ پاکستان کے عوام کو بندوق، تعصب، شدت پسندی اورانتہا پسندی کی طرف مائل کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ڈیجیٹل ایج بھی یہاں کے سماج اور اس کی فطرت کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو نیوز چینلز کے ننانوے فیصد اینکرز کی گفتگو سن لیں، اسی طرف مختلف اردو اخبارات میں جس طرح تبصرے اور تجزیئے لکھے جارہے ہیں، ان کی مانیٹرنگ کر لیں، اس سے واضح ہو جائے گا کہ پاکستان میں کون جہالت کی پرورش کررہا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک میں کوئی ایسا دہشت گرد نہیں ہے جو چٹا ان پڑھ ہو، ہر دہشت گرد پر کسی نہ کسی زہر آلود نظریئے کا اثر ہے۔ ہر دہشت گرد پر کسی نہ کسی خاص قسم کی تعلیم کا اثر ہے۔ القاعدہ سے داعش اور داعش سے طالبان تک اس حوالے سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کہ تعلیم یافتہ دماغ، دانشور، کالم نویس اور اینکرپرسنز طاقتور ریاستی اداروں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مرضی کے انسان پیدا کررہے ہیں۔ یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں درندگی کی کیفیت ہے۔ علمی بددیانتی ہی وہ سبب ہے جس سے دہشت گردوں اور انتہا پسند عناصر کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ٹی وی پر اینکرز اور تجزیہ کار میڈیا مالکان اور طاقتور اداروں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر علمی بددیانتی کا مظاہرہ کررہے ہیں، ادیب اور دانشور ایک خاص قسم کا ادب تخلیق کرکے انسانی ذہن کو متعصب اور خطرناک بان رہے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک میں قرآن کریم سے لے کر اقبال اور جناح کے خیالات و نظریات کو ہر ایرہ غیرہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ طاقتور علمی شخصیات اور ادارے اس علمی بددیانتی میں ملوث ہیں، کیا انہیں کوئی پوچھتا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب اس ملک میں روشن خیال اور ترقی پسند ادب چھپتا بھی تھا اور بکتا بھی تھا، لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ معقول سوچ پر مبنی کتابیں خال خال ہی چھپتی اور بکتی ہیں، نیوز چینلز پر بھی چوہدری غلام حسین، ڈاکٹر دانش اور عامر لیاقت جیسے افراد کی ریٹنگ آتی ہے یا دلوائی جاتی ہے۔

کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہاں انتہا پسندانہ لٹریچر لاکھوں کی تعداد میں بک رہا ہے، کیا یہ کڑوا سچ نہیں کہ اردو زبان اب انتہا پسندوں کی زبان بن چکی ہے؟ انتہا پسندانہ، فرقہ وارانہ لٹریچر نے اردو زبان کو بھی بدصورت کردیا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو انگریزی میں سوچتا، لکھتا اور پڑھتا ہے۔ پاکستان میں اب بھی وہ زمانہ ہے جہاں اردو ادب میں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ یہودی ہندو اور باقی تہذیبی یافتہ دنیا پاکستان اسلام اور مسلم امہ کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ کس طرح اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں، اردو زبان کو اس نظریئے سے پیش کیا جارہا ہے۔

اردو ادب میں ان نام نہاد ادیبوں، کالم نویسوں، اینکرز پرسنز کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے جو یہ لکھ اور بول رہے ہیں کہ پاکستان اور اسلام کو دنیا سے کتنا بڑا خطرہ ہے، پاکستان کی پوری عمارت ہی اسی بنیاد پر تعمیر کی جارہی ہے۔ انتظار حسین، فیض احمد فیض، مجید امجد، ن م راشد قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ نسیم حجازی سے متاثر نام نہاد تعلیم یافتہ ادیب ایسا ادب تخلیق کررہے ہیں جو عوام کی طبعیت کو تو خوش کررہا ہے لیکن ایسا ادب صرف اور صرف جہالت کی نشوونما کررہا ہے۔

ادبی میلوں کا رواج تقریبا ناپید ہو چکا ہے۔ ساحر لدھیانوی اور ابن صفی کو اب کون کمبخت جانتا ہے؟ کیا ترقی پسندانہ ادب اب اردو میں نظر آتا ہے؟ کیا ہماری نواجوان نسل انیس اور دبیر کے مرثیوں سے واقف ہے؟ جدید ناول نگاری، اشتراکیت، لبرل ازم پر اب پاکستان کا کونسا ادیب لکھ رہا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب اردو ان موضوعات سے اٹی پڑی تھی، 1980 میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا اور اس کے بعد امریکہ کی افغانستان میں آمد ہوئی، پھر تو پاکستان میں تمام خیالات و نظریات اور بیانیئے ہی امریکہ کی مرضی سے تخلیقکیے گئے۔ اس کے بعد ہی سے اردو ادب میں خ سے خنجر ب سے بم آیا۔ کیا یہ اٹل حقیقت نہیں کہ اس کے بعد سے پاکستان کا نصاب بھی امریکہ کی مرضی سے تخلیق کیا گیا؟ امریکہ نے ایسے لوگ پیداکیے جو کمیونزم کی ایسی تیسی پھیر سکیں، روس کو افغانستان سے بھگا سکیں۔

ستر کی دہائی میں کتاب میلوں میں دس فیصد انتہاپسندانہ لٹریچر ہوتا تھا اور نوے فیصد کتابیں تعلیمی یا سیکولر نیچر کی ہوتی تھی۔ اس دور کے میلوں میں فیض، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، ساحر لدھیانوی کے خیالات خوب بکتے تھے، لیکن اب تو سب خلت ملت ہوگیا۔ اس میں کوئی شک و شبہہ کی بات نہیں کہ اب بھی اردو زبان میں بہت جان ہے، بڑی تعداد میں ترقی پسند ادب اس زبان میں لکھا گیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ترقی پسند ادیبوں اور روشن خیال دانشوروں نے اردو زبان میں لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے، ریاست اور ریاستی اداروں نے انتہا پسند لٹریچر اور ان اردو اخبارات اور میڈیا ہاوسز کی سرپرستی کی ہے جو تعصب پر مبنی لٹریچر پھیلا رہے ہیں۔ آج کے اردو اخبارت اور میڈیا ہاوسز میں بھی نوے فیصد نسیم حجازی کے خیالات ملتے ہیں۔

اردو اخبارات میں آج بھی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے یا پھر اس تقریر کو سازش لکھا جاتا ہے۔ نیوز چینلز پر نفرت سےبھرپور تعصبانہ ذہن کا قبضہ ہے۔ ہر سکرین پر اوریا مقبول جان جیسا نقلی دانشور بیٹھا نظر آتا ہے، سازشی ایجنڈا پھیلانا ہی جس کا مقصد ہے۔ قوم کے جوخیالات اور نظریات بنادیئے گئے ہیں اسی وجہ سے تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسند ہورہی ہے۔ منٹو اور فیض کی زبان جسے اردو کہتے ہیں اب وہ اوریا مقبول جان کی زبان بن چکی ہے۔ بڑی چالاکی سے اس زبان کو یرغمال بنایا گیا ہے۔

روشن خیال تو اب اس قدر تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ اردو کتاب پڑھنے کو ہی اہنی توہین سمجھتے ہیں، روشن خیال تو اب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی اردو بڑی کمزور ہے۔ پاکستان میں نوجوان نسل کو پنجابی، پشت، سندھی، بلوچی اور سرائیکی زبانوں میں بھی ادب مہیا کرنے کی ضروت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بائیں بازو کے دانشوروں، ادیبوں اور کالم نویسوں کی بھرمار تھی، دائیں بازو کا کالم نویس خال خال ہی ملتا تھا، اب صورتحال مختلف ہے، اب جگہ جگہ جاوید چوہدری نظر آتے ہیں۔ لیفٹ کے، اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے والے اور مختلف سوچنے والے ادیب، کالم نویس اور اینکرز نایاب ہو چکے ہیں۔ کاش ہمارے دانشور اور ریاستی ادارے اپنے مفادات سے باہر نکل سکیں؟ ذرا سوچیئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).